بیسیوں انجن مختلف گاڑیوں کو اپنے پیچھے لگائے تیار مگر ساکت حالت میں اِدھر اْدھر کھڑے تھے،ہال میں گہرا سناٹا تھا اور کم روشنی میں بڑا ہی پراسرار ماحول تھا

مصنف: محمد سعید جاوید

قسط: 299

ابھی میں منہ پھاڑے ان چیزوں کو حیرت سے دیکھ کر متاثر ہی ہو رہا تھا کہ ٹم وارنر نے میرے لیے ان میں سے کچھ چیزوں کے آرڈربھی دینے شروع کردئیے، وہ مجھ سے زیادہ مجھے صاحب ریل بنانے کے لیے بیتاب تھا۔ سیلزمین اس کا آرڈر سنتے ہی دوڑے دوڑے جاتے اور پیکٹوں میں بند مطلوبہ "مال" لا لا کر کاؤنٹر پر ڈھیر کرتے جاتے تھے۔

کئی قسموں کی مسافر بوگیوں اور مال گاڑی کی ویگنوں اور گارڈ کے کبوس کے بعد جب انجنوں کی خریداری کا وقت آیا تو اس نے مجھے بھی اس خریداری میں شامل کر لیا۔ اس کا خیال تھا کہ یہ ایک مہنگا سودا تھا اس لیے میری مرضی اور پسند کے مطابق اسے خریدا جانا چاہیے تھا۔

انجنوں کی خریداری

انجنوں میں میری دلچسپی تو بس بھاپ والے انجنوں تک ہی محدود تھی کیونکہ اسی کی محبت نے مجھے بچپن سے دیوانہ بنا رکھا تھا۔ غرض اتنی اقسام کے سٹیم انجن لائے گئے کہ میرے لیے انتخاب کرنا مشکل ہو گیا۔ جب میں کوئی فیصلہ نہ کر پایا تو اس نے مجھے ایک ڈبے میں بند "فلائنگ سکاٹس مین" کا سٹیم انجن دکھایا، جو بجلی سے چلتا تھا اور اس میں تیل کے دو قطرے ٹپکانے سے اس کی چمنی میں سے ہلکا ہلکا دھواں بھی نکلتا تھا اور یہ بالکل اصلی انجن ہی کی طرح ہلکی سی سیٹی بھی بجانے کی کوشش کرتا تھا اور اس کی ہیڈ لائٹ بھی ہمہ وقت روشن رہتی تھی۔

غرض باہم مشورے ہوئے اور میں نے اسی پر انگلی رکھ دی۔ سیاہ تھوتھنی اور سبز سے پیٹ والا انجن بڑا ہی خوبصورت لگ رہا تھا اور ٹم وارنر کے مطابق برطانوی ریلوے کا یہ سب سے جاندار ریلوے انجن ہوا کرتا تھا جس نے 1934 میں 160 کلومیٹر کی رفتار سے دوڑ کر نیا ریکارڈ قائم کیا تھا۔ سٹور والوں نے اس کو ڈبے سے نکال کر وہاں سٹور میں ہی بچھی ہوئی لمبی چوڑی پٹری پر دوڑا کر دکھایا۔ اس کے پیچھے کوئلوں والا ڈبہ بھی لگا ہوا تھا اور اندر ننھے منے ڈرائیور اور فائرمین کو بھی بٹھا رکھا تھا۔

خریداری کا معاملہ

خریداری مکمل کرنے کے لیے سٹور والوں نے مجھے کچھ کتابچے بھی دئیے جن میں اس سارے نظام کی ترتیب و تنصیب کا طریقہئ کار تحریر تھا۔ جب ایک لمبا چوڑا بل میرے ہاتھ میں تھمایا گیا تو اسے دیکھ کر ایک مرتبہ تو طبیعت صاف ہو گئی۔ کرسمس کی سیل اور ٹم وارنر جیسے مستقل گاہک کے ساتھ جانے کے باوجود اس سارے سامان کے مجھے کوئی ڈھائی سو پاؤنڈ ادا کرنے تھے۔

دوست کا استقبال

وہاں سے میرا وہی ریلوے کا دیوانہ دوست مجھے اپنے گھر لے گیا اور اچھا سا کھانا کھلانے کے بعد وہ لاؤنج میں ہی بنی ہوئی تنگ سی گول سی سیڑھی سے مجھے اوپر چڑھا کر بالائی منزل پر واقع ایک بڑے سے ہال کمرے میں لے گیا، جہاں اس نے اپنی ذاتی ریلوے کمپنی قائم کی ہوئی تھی۔ ایک بہت ہی لمبی چوڑی میز پر پٹریوں کا ایک پیچیدہ جال بچھایا ہوا تھا، جس پر جگہ جگہ اسٹیشن، پل اور سرنگیں بنائی ہوئی تھیں اور مختلف طرح کے جنگل وغیرہ اگائے ہوئے تھے۔

چھوٹے چھوٹے سے دریا اور چشمے بھی موجود تھے جن کے اوپر سے گاڑیاں گزرنے کے لیے پٹریاں بچھائی گئی تھیں۔ یہاں بلا مبالغہ بیسیوں انجن مختلف گاڑیوں کو اپنے پیچھے لگائے ہوئے تیار مگر ساکت حالت میں اِدھر اْدھر کھڑے تھے۔ کچھ مجرد قسم کے انجن بھی تھے، جن کو شاید ان کے اناڑی پن کی وجہ سے ابھی گاڑیاں نہیں سونپی گئی تھیں۔ ہال میں گہرا سناٹا تھا اور کم روشنی میں تو یہ بڑا ہی پْراسرار سا ماحول لگ رہا تھا۔

(جاری ہے)

نوٹ: یہ کتاب "بک ہوم" نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں) ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

Related Articles

Back to top button
Doctors Team
Last active less than 5 minutes ago
Vasily
Vasily
Eugene
Eugene
Julia
Julia
Send us a message. We will reply as soon as we can!
Mehwish Hiyat Pakistani Doctor
Mehwish Sabir Pakistani Doctor
Ali Hamza Pakistani Doctor
Maryam Pakistani Doctor
Doctors Team
Online
Mehwish Hiyat Pakistani Doctor
Dr. Mehwish Hiyat
Online
Today
08:45

اپنا پورا سوال انٹر کر کے سبمٹ کریں۔ دستیاب ڈاکٹر آپ کو 1-2 منٹ میں جواب دے گا۔

Bot

We use provided personal data for support purposes only

chat with a doctor
Type a message here...