سی سیکشن: دلچسپ حقائق اور تفصیلات
مسائل کی ابتدا
اپنے خاندان میں قریب آدھ درجن خواتین کا ایک ہی مسئلہ دیکھ کر سوچا کہ اگر ایک گھر میں ایک جیسے مسائل ہو سکتے تو باقی کیا ہوگا۔ بس اسی وجہ سے تحقیق شروع کی اور پھر حقائق سے پردہ اٹھتا چلا گیا۔ میرے بھتیجے کی پیدائش پر ایسا واقعہ ہوا جس نے ہمارے ہوش اڑا دیئے اور سب کی اصلیت کے بھی پول کھول دئیے۔ چاہے سرکاری ہسپتال ہو یا پرائیوٹ، سب ایک جیسے ہیں۔ جس ڈاکٹر سے چیک اپ ہو رہا تھا وہ پرائیویٹ تھی، اس نے ایک جگہ ریفر کیا لیکن انہوں نے کیس لینے سے منع کر دیا کہ اگر ہم سے چیک کرواتے تو ہم لیتے، اس کے بعد ایک سرکاری ہسپتال لے جانا پڑ گیا۔ پہلے تو انہوں نے چیک نہیں کیا، پھر فائل لی اور کہا کہ انتظار کریں، پھر کہا کہ جی آپ نے پہلے ہم سے چیک نہیں کروایا، اس لیے اپنے مریض کو لے جائیں۔
یہ بھی پڑھیں: وسطی میکسیکو میں مسافر بس گہری کھائی میں جاگری، 19 افراد ہلاک
مریض کی حالت اور ہسپتال کی غیر ذمہ داری
اب سوال یہ ہے کہ ایک مریض تشویشناک حالت میں ہے، اس کے باوجود آپ اس کا علاج کیوں نہیں کر رہے؟ پھر وہیں سے ایک ڈاکٹر آتی ہے اور کہتی ہے، اسے میرے کلینک لے جاؤ میں کرتی ہوں، کیسا؟ یہ ایک الگ کہانی ہے۔ سوال یہ ہے کہ ایک سرکاری ہسپتال جو شاید عوام کی سہولت کے لیے بنا ہے، وہاں سے بھی اگر کسی مریض کو نکال دیا جائے، صرف یہ کہہ کر کہ آپ نے پہلے چیک نہیں کروایا تو مریض کہاں جائے؟ یہ کس کی نا اہلی ہے؟
یہ بھی پڑھیں: چھینا ہوا موبائل دینے کیلئے گھر بلاکر خاتون کومبینہ اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنا دیا گیا
عالمی صحت کی حقیقتیں
اب بات کر لیتے ہیں حقائق کی۔۔۔ سائنس و ٹیکنالوجی کی ترقی اور طبی سہولیات میں اضافے کے باعث دنیا میں شرح اموات میں کمی آئی ہے، مگر اب بھی ترقی پذیر اور پسماندہ ملکوں میں سالانہ لاکھوں نوزائیدہ بچے اور ان کی مائیں زچگی کے دوران یا ڈیلیوری کے بعد دم توڑ جاتی ہیں۔ اس وقت مجموعی طور پر یہ شرح اموات ہر ایک لاکھ پیدائشوں میں 211 ہے۔ پاکستان ڈیموگرافک اینڈ ہیلتھ سروے کے مطابق پاکستان میں نوزائیدہ بچوں کی اموات کی تعداد 276 فی ایک لاکھ سے کم ہو کر 186 اموات ہوگئی ہے، پھر بھی ہم ناکافی طبی سہولیات یا آگاہی کے فقدان کے باعث کافی پیچھے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: بالی وڈ اداکار سلمان خان کے خلاف بشنوئی برادری کا احتجاجی مظاہرہ
سی سیکشن کی بڑھتی ہوئی شرح
دنیا میں نوزائیدہ بچوں کی اموات کی بین الاقوامی فہرست میں پاکستان کا نمبر 139 جبکہ ہمسایہ ملک بھارت کا نمبر 120 واں ہے جہاں ایک لاکھ میں سے 139 بچے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ پاکستان اور بھارت کی آبادی میں فرق کے لحاظ سے یہ اعداد وشمار پاکستان کے لیے لمحہ فکریہ ہیں۔ حالیہ عرصے کے دوران سی سیکشن یا آپریشن کے ذریعے بچے کی پیدائش کی شرح میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ پاکستان میں 1990 کی دہائی میں نوزائیدہ بچوں کی بڑے آپریشن سے پیدائش کی شرح صرف 3.2 فیصد تھی جو 2018 میں 20 فیصد تک جا پہنچی اور آج یہ شرح غیر سرکاری اعدادوشمار کے مطابق 30 فیصد تک پہنچ چکی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: میکسویل کی شاندار بیٹنگ جس نے میچ پاکستانی اننگز سے پہلے ہی ختم کر دیا
طبی طریقہ کار اور ان کے اثرات
پاکستان میں ویسے تو شعبہ صحت کی مجموعی صورتحال ہی اطمینان بخش نہیں اور عوام کو علاج معالجے کے لئے کن حالات سے گزرنا پڑتا ہے، اس سے ہم سب واقف ہیں۔ اعدادو شمار بتاتے ہیں کہ حالیہ برسوں کے دوران پاکستان میں بچوں کی پیدائش کے لیے سی سیکشن کی شرح خوفناک حد تک بڑھ گئی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا سی سیکشن کا آغاز کس ملک سے ہوا؟ کیا ڈیلیوری کے لیے زچہ کے آپریشن کی واقعی ضرورت ہوتی ہے یا محض کمائی کے لیے زچہ، بچہ اور ان کے خاندانوں کو اذیت میں ڈالا جاتا ہے؟ ان کے فوائد اور مضمرات کیا ہو سکتے ہیں؟
یہ بھی پڑھیں: نواز شریف واشنگٹن پہنچ گئے، اہم امریکی شخصیات سے ملاقاتوں کا امکان
حکومت اور صحت کا نظام
یہ کہانی تو ایک طرف، ایک پرائیویٹ ہسپتال میں کام کرنے والی خاتون سے بات ہوئی تو اس نے اندر کی ایک اور کہانی سنائی۔ اس کلینک پر ہر آنے والی مریض کا سی سیکشن کیا جاتا۔ پہلے کہا جاتا کہ نارمل ہے، بعد میں اسے ایسا انجیکشن لگایا جاتا کہ حالت خراب ہو جاتی۔ اسی تناظر میں ایک اور نرس سے بات ہوئی تو اس نے کہا کہ اتنے بڑے ہسپتال کے خرچے نکالنے کے لیے یہ ضروری ہے۔
نتیجہ
اب دیکھنا یہ ہےکہ اس سارے معاملے کو حکومت کس سطح پر حل کرتی ہے اور یہ گورکھ دھندا کرنے والے کب تک ماں اور بچے کی زندگی سے کھلواڑ کرتے رہیں گے۔
نوٹ: یہ مصنفہ کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ڈیلی پاکستان کیلئے لکھنا چاہتے ہیں تو اپنی تحاریر ای میل ایڈریس '[email protected]' یا واٹس ایپ "03009194327" پر بھیج دیں۔