پاکستان، بھارت وکلاء انجمنوں کو قانون کی طاقت بھی استعمال کرنی چاہیے، سفید پتلون اور گلابی شرٹ میں ملبوس بزرگ نے بتایا وہ کرکٹ کے پرانے سیوک ہیں
مصنف کا تعارف
مصنف: رانا امیر احمد خاں
قسط: 218
یہ بھی پڑھیں: توشہ خانہ ٹو کیس؛ بانی پی ٹی آئی کی ضمانت کی درخواست پر اعتراضات دور، پیر کو دوبارہ مقرر کرنے کا حکم
خطاب کا مقصد
راقم کو خصوصی طور پر خطاب کی دعوت دی گئی۔ راقم نے میڈیا اور صفائی مہم میں حصہ لینے والے پاک، بھارتی احباب سے خطاب کرتے ہوئے گنگا صفائی کیمپ کرنے کے جذبہ کو سراہا اور اس امر پر زور دیا کہ جذبۂ صفائی کو دیرپا اور ہماری طبیعت و مزاج کا حصہ بنانے کے لیے صفائی اور سوک ایجوکیشن کو سکول نصاب کا حصہ بنایا جائے۔
یہ بھی پڑھیں: نوکری کی بھی کیا کیا مجبوریاں ہوتی ہیں، نواز شریف کو بھی ترمیم کے لئے ووٹ ڈالنے اسمبلی آنا پڑا، بابر اعوان
صفائی ورک کیمپ کی ضرورت
نیز پارکوں، نہروں، جھیلوں، دریاؤں اور سمندر کنارے تمام تفریحات کی جگہوں کو صاف ستھرا رکھنے اور صفائی کا معیار بہتر بنانے کے لیے مستقل ماہانہ بنیادوں پر ملک بھر میں شہر شہر قصبے قصبے اور گاؤں گاؤں طلباء اور نوجوانوں کے صفائی ورک کیمپ منعقد کئے جانے چاہئیں۔ ورک کیمپوں میں ہزاروں، لاکھوں نوجوانوں، طلبا اور بار ایسوسی ایشنوں کو دعوت دی جانی چاہیے۔ مستقل بنیادوں پر ایسا کرنے سے ساؤتھ ایشیا کے ممالک کے عوام میں جذبۂ صفائی فروغ پائے گا، بلکہ چند سالوں میں ہمارے تمام سیاحتی مقامات بھی مزید صاف ستھری خوبصورت نظر آئیں گے۔
یہ بھی پڑھیں: پنجاب بھر کی جیلوں میں “سمارٹ لائیبریری” پراجیکٹ کا آغاز، 1 لاکھ کتابیں پہنچا دی گئیں، قیدیوں کے لیے ضابطہ اخلاق بھی جاری
کیمیکل آلودگی کے خطرات
راقم نے صفائی مہم کے علمبرداروں کو یہ بھی باور کروایا کہ عام گندگی اپنی جگہ لیکن دریاؤں کے قریب قائم کارخانوں کی کیمیکل آلود نکاسی اور شہروں کی سیوریج لائنیں نہروں اور دریاؤں کے پانی کو زہر آلود بنا رہی ہیں۔ اس آمیزش کو روکنے کے لیے پاک، بھارت وکلاء انجمنوں کو قانون کی طاقت بھی استعمال کرنی چاہیے۔
یہ بھی پڑھیں: قومی سلامتی کمیٹی اجلاس: ایران کیخلاف اسرائیلی جارحیت کی شدید مذمت
کانپور کرکٹ سٹیڈیم میں سرگرمیاں
ہوٹل واپس پہنچتے ہی سب لوگوں نے باتھ رومز کی راہ لی۔ دریائے گنگا کی صفائی مہم والے کپڑے تبدیل کیے۔ اچھی طرح صابن مل مل کر نہائے اور تھکاوٹ اْتارنے کے لیے بستروں پر دراز ہو گئے۔ سب لوگ آچکے تھے کہ آرام کرنے کا فیصلہ کیا، جبکہ سجاد محمود بٹ اور ظفر علی راجا نے تھکاوٹ کو نظرانداز کرتے ہوئے شہر کا چکر لگانے کو ترجیح دی۔
یہ بھی پڑھیں: شہداء کے لیے تقریب،پی ٹی آئی کارکنان کھانے پر گتھم گتھا
شہر کی سیر
ہوٹل کے گیٹ پر نوجوان وکیل نریش کمار تیواڑی کی کار میں بیٹھ کر شہر گردی کے لیے نکل کھڑے ہوئے۔ شہر کی مشہور آبادیوں میں گھومنے کے بعد کانپور کی مال روڈ، میکٹسن روڈ اور گرین پارک کرکٹ سٹیڈیم سے ہوتے ہوئے ہوٹل واپس ہونا طے پایا۔ نریش کمار گفتگو اور کار ڈرائیوری دونوں میں تیز رفتار ثابت ہوا۔ اس نے کار اْڑاتے ہوئے نئی پْرانی بستیوں کی سیر کروائی، مگر تیز رفتاری کے باعث دوستانہ تبصرے کے باوجود کسی قابلِ دید چیز پر توجہ مرکوز نہ کر سکے۔
یہ بھی پڑھیں: امریکی سفارتخانے نے پاکستان میں موجود امریکی شہریوں کے لیے سیکیورٹی الرٹ جاری کردیا
خوبصورت بازاروں کی جھلک
میکٹسن روڈ پر پہنچنے پر ٹریفک اور لوگوں کا اژدھام تھا۔ کار کی آہستہ آہستہ خرامی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پاکستانی دوستوں نے دیکھا کہ یہ ایک خوبصورت اور پرْہجوم بازار تھا۔ بعض دوکانوں کی چمک دمک اور سجاوٹ دیکھ کر بے ساختہ داد دینے کو جی چاہتا تھا۔ اگلا ہدف مال روڈ تھا، جو کہ ایک دیدہ زیب سرسبز اور صاف ستھری سڑک تھی۔
یہ بھی پڑھیں: 27ویں ترمیم کے ذریعے صوبائی خودمختاری پر ڈاکہ ڈالا گیا یا جمہوریت کمزور کی گئی تو بھرپور مزاحمت کریں گے، وزیراعلیٰ سہیل آفریدی
گرین پارک سٹیڈیم کا تعارف
نریش کمار نے مال روڈ سے اچانک اپنی کار دائیں ہاتھ کو مڑتی ہوئی ایک سڑک پر گھمائی۔ تھوڑی دیر چلنے کے بعد سڑک کے ساتھ چلتی ہوئی کانپور کے کرکٹ سٹیڈیم کی بڑی دیوار دکھائی دی۔ اس سٹیڈیم کا نام "گرین پارک سٹیڈیم" ہے۔ یہ قدیم فوجی بیرک کی جگہ ہے جہاں 1857ء کی جنگ آزادی کے دوران انگریز فوج کے سپاہی قیام پذیر رہے۔
یہ بھی پڑھیں: میدانی علاقے شدید دھند کی لپیٹ میں آگئے، موٹر وے بند
اپنی بات رکھتے ہوئے
سٹیڈیم کے مین گیٹ سے باہر آتے ہوئے ایک بزرگ نے بتایا کہ وہ کرکٹ کے پرانے سیوک ہیں اور ایک طویل عرصہ سے کرکٹ کے فروغ کے لیے کام کر رہے ہیں۔
(جاری ہے)
نوٹ
یہ کتاب "بک ہوم" نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں) ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔








