شیلا باغ: ایک خوبصورت اور رومانوی اسٹیشن جسے قومی ورثہ قرار دیا گیا
مصنف: محمد سعید جاوید
قسط: 319
آب گم (1886ء)
یہ بلوچستان میں روہڑی۔ کوئٹہ ریلوے لائن کا ایک بڑا جانا پہچانا اور پراسرار سا مگر خوبصورت ریلوے اسٹیشن ہے۔ کہتے ہیں کہ اس اسٹیشن کے آس پاس ہی کوئی ایسا چشمہ ہے جس کا پانی بلندی سے نیچے گرتا ہے اور کہیں گم ہو جاتا ہے۔ فارسی میں اس نام کا مطلب بھی گم ہو جانے والا پانی ہے۔ یہاں سے وادیٔ بولان میں جانے کے لیے مسلسل اور بہت زیادہ چڑھائی شروع ہو جاتی ہے اس لیے یہاں سے کوئٹہ کے سفر کے دوران ریل گاڑی میں ایک اضافی بینکر انجن لگایا جاتا ہے، جس کے لیے کوئٹہ جانیوالی ہر گاڑی یہاں رکتی ہے۔ واپسی پر اترائی کی وجہ سے اس اضافی انجن کی ضرورت نہیں ہوتی۔
شیلا باغ (1891ء)
ایک چھوٹی سی پہاڑی پر بنا ہوا مختصر سا مگر بہت ہی خوبصورت اور رومانوی سے نام والا یہ اسٹیشن کوئٹہ۔ چمن مرکزی لائن ایم ایل- 3 پر کھوجک ٹنل سے محض چند سو فٹ پیچھے واقع ہے، بلکہ اس کے پہلو سے ہی یہ مشہورِ زمانہ سرنگ شروع ہو جاتی ہے۔ اس اسٹیشن کی خوبصورتی اور اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے محکمہ ریلوے نے اسے قومی ورثہ قرار دے دیا ہے اور اس کی تعمیر نو کر کے اس میں ایک ریلوے میوزیم بھی قائم کر دیاہے۔ حکومت بلوچستان اس علاقے کو سیاحتی مقام قرار دے کر کوئٹہ سے یہاں تک سیاحتی سفاری ٹرین بھی چلانا چاہتی ہے۔
سکھر (1878ء)
سکھر سندھ میں دریائے سندھ پر واقع ایک بڑا مگر بہت ہی قدیم شہر اور ریلوے اسٹیشن ہے۔ تاریخ میں اس کے بہت حوالے ملتے ہیں۔ پہلے پہل یہ دریائے سندھ پر ایک بندر گاہ تھی جس پر انڈس فلوٹیلا کمپنی کے بحری جہاز لنگر انداز ہوتے تھے۔ پھر جب اس کے آس پاس کوئٹہ اور لاہور جانے والی لائنیں کھلیں تو یہی جہاز پوری ریل گاڑی کو اٹھا کر دریائے پار کرواتے تھے۔ بعد میں یہاں لینس ڈاؤن پل بنا اور پھر ایوب برج، جن کو دیکھنے کے لیے آج بھی یہاں بہت خلقت اْمڈی آتی ہے۔ اسٹیشن میں بذات خود تو کوئی ایسی خاص بات نہیں ہے، مگر آس پاس تاریخی مقامات ہونے کی وجہ سے یہ اسٹیشن کافی مشہور ہے۔
تفتان (1905ء)
یہ پاکستان کا ایک بہت دور افتادہ اسٹیشن ہے جو اجاڑ اور بیابان ریگستانی علاقوں سے گزرنے کے بعد آتا ہے اور ایران کی سرحد پر واقع پاکستان کا آخری اسٹیشن ہے۔ پہلے تو یہ محض گاڑی کے چوبی سلیپروں سے بنائے گئے سادہ سے ایک ہی کمرے پر مشتمل ہوتا تھا، تاہم چند برس قبل ہی اس کے لیے ایک بڑی اور جدید ترین عمارت کی تعمیر ہوئی ہے۔ یہ پاکستان کا پہلا نادر ریلوے اسٹیشن ہے جس میں اسٹیشن کی مرکزی عمارت کے نیچے ایک تہہ خانے میں پاسپورٹ امیگریشن اور کسٹم وغیرہ کے دفاتر بھی موجود ہیں۔
(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں) ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔








