مولانا ظفر علی خان کی ملی سیاسی اور علمی خدمات ہماری تاریخ کا روشن باب ہیں: ظفر علی فاؤنڈیشن کی تقریب سے مجیب الرحمان شامی اور دیگر مقررین کا خطاب
مولانا ظفر علی خان: بابائے صحافت
لاہور( خصوصی رپورٹ ) بابائے صحافت مولانا ظفر علی خان کا شمار ہماری ملی تاریخ کی ان عظیم شخصیات میں ہوتا ہے جو اسلامیان پاکستان کے لئے رول ماڈل ہیں۔ انہوں نے خوابیدہ ملت کو جس طرح بیدار کیا اور آزادی کے حسین خواب کی تعبیر کے لئے تیار کیا، اس کے تذکرہ کے بغیر ہماری ملی تاریخ کا ذکر مکمل نہیں ہوسکتا۔
یہ بھی پڑھیں: چین: ریسٹورنٹ میں آتشزدگی سے 22 افراد ہلاک
تحریک پاکستان میں کردار
وہ نہ صرف ہماری تحریک پاکستان میں قائد اعظم کے متعدد رفیق کار تھے بلکہ بے شمار خوبیوں کے مالک تھے۔ وہ ایک بلند پایہ صحافی، مدیر، قادرالکلام شاعر، مترجم، ڈرامہ نویس، خطیب، مجاہد ختم نبوت اور سچے و پکے مسلمان بھی تھے۔

یہ بھی پڑھیں: علیمہ خانم کو 26 نومبر کے مقدمے میں 5 سے 7 سال کی سزا ہوگی، تجزیہ کار حسن ایوب کا دعویٰ
تقریب کا انعقاد
ان خیالات کا اظہار مقررین ممتاز صحافی اور تجزیہ نگار مجیب الرحمان شامی، ڈاکٹر اسلم ڈوگر، حکیم راحت نسیم سوہدروی، ڈاکٹر وقار ملک، محمد آصف بھلی، بریگیڈیئر بابر علاؤ الدین وقار چیمہ، ایم پی اے سید ضیاءالنور، جواد پیرزادہ، اسٹنٹ کمشنر محمد ماجد، انس ربانی اور کاشف منظور سمیت دیگر مقررین نے مولانا ظفر علی فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام مولانا کے مزار کرم آباد کے احاطہ میں برسی کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ تقریب کی صدارت خالد محمود چیئرمین ظفر علی فاؤنڈیشن نے کی۔
یہ بھی پڑھیں: نئے انتخابات میں نواز شریف پھر وزیراعظم بن گئے، انہوں نے بڑے سیاسی قرینے سے بے نظیر بھٹو کو ہم خیال بنایا اور آئین سے 58ٹو بی کا خاتمہ کر دیا.
مولانا کا اثر و رسوخ
مقررین نے کہا کہ مولانا ظفر علی خان جس وقت آزادی کے حسین خواب کے لئے نکل کھڑے ہوئے، اس وقت صورت حال یہ تھی کہ ایک لال پگڑی والے سپاہی سے پورا گاؤں لرزہ براندم ہوجاتا تھا۔ برصغیر کی انیسویں صدی کے نصف اول کی کوئی تحریک ایسی نہیں جس میں مولانا کا کردار قائدانہ نہ ہو۔ قادنیوں کو اقلیت قرار دینے اور سیاسی مسئلہ قرار دینے کا مطالبہ انہوں نے کیا۔ مولانا ظفر علی خان نے اردو ادب اور زبان کو بے شمار نئے الفاظ دئیے۔ انہیں قرارداد پاکستان پر پنجاب کی جانب سے تائیدی تقریر کرنے اور پھر اس کا ترجمہ کرنے کا اعزاز حاصل ہوا۔
حیات کا مقصد
وہ ان خوش قسمت افراد میں سے ہیں جنہوں نے اپنی زندگی میں انگریز کو نکلتے اور آزادی کا سورج طلوع ہوتے دیکھا اور آزاد فضاؤں میں سانس لیا۔ مولانا ظفر علی خان کی زندگی کا مقصد فرنگی سامراج سے نجات اور اسلام کی سربلندی رہا۔ ان کی زندگی کا ہر تیسرا دن جیل میں گزرا اور کئی بار ان کا اخبار "زمیندار" ضبط ہوا اور ضمانتوں کے ساتھ لاکھوں کا جرمانہ ادا کیا۔ صحافت کو عوامی بنانا اور خواص سے نکال کر جدید قالب میں ڈھالنا ان کا احسان عظیم ہے۔ اپنی خدمات کے باعث وہ ہماری قومی تاریخ کا عنوان جلی رہیں گے۔








