دہشتگردی جمہوری معاشروں میں ناقابلِ قبول ٹھہرنی چاہیے، طاقت کے بل پر لوگوں کے حقِ رائے دہی سے انکار کرنا بھی دہشت گردی کو جنم دیتا ہے۔
مصنف: رانا امیر احمد خاں
قسط: 230
بھارتی سپریم کورٹ بار کی گفتگو
بھارتی سپریم کورٹ بار کے صدر مسٹر کرشنامنی نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ بھارت میں دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے مستحکم ہونے کی وجہ اس کی مضبوط عدلیہ ہے جبکہ اردگرد کے ممالک میں عدلیہ کی کمزوری کے سبب جمہوری نظام غیر مستحکم ہوتے رہتے ہیں۔ انہوں نے اعلان کیا کہ مجوزہ ساؤتھ ایشیا وکلاء تنظیم کو مزید متعارف کروانے کے لیے دہلی میں سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن ایسا ہی عظیم الشان فنکشن منعقد کرنے کے لیے تیار ہے۔ انہوں نے یہ بھی اعلان کیا کہ پاکستانی وکلاء نے جمہوریت کے لیے قربانیاں دے کر عالمی سطح پر اپنے کردار کو منوایا ہے۔ انہوں نے پاکستانی وکلاء کے وفد کو دعوت دی کہ یہ وفد جب واپس دہلی آئے گا تو سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن آف انڈیا پاکستانی وکلاء وفد کے اعزاز میں ایک استقبالیہ تقریب کا انعقاد کرے گا۔ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن انڈیا کے صدر کی تقریر ختم ہوئی تو سٹیج سیکرٹری نے رانا امیر احمد خاں کا نام پکارا۔
رانا امیر احمد خاں کی تقریر
رانا امیر احمد خاں نے اپنی تقریر کے آغاز میں کانپور بار ایسوسی ایشن کے عہدیداران کو بار کی 114 ویں سالگرہ کی تقریبات کو خوبصورتی سے ترتیب دینے، ساؤتھ ایشیا لائیرز کونسل کے قیام کے ذریعے اس خطے کے عوام کو بلاتمیز مذہب، رنگ و نسل ہر فرد کو برابر کے انسانی حقوق دلوانے کی جدوجہد کا آغاز کرنے اور شاندار مہمان نوازی پر پاکستانی وفد کے ارکان کی جانب سے دلی مبارکباد پیش کی اور مقامی بار کے عہدیداران کی انتظامی صلاحیتوں کی دل کھول کر تعریف کرتے ہوئے ان کو بہترین منتظم اور اعلیٰ پائے کے آرگنائزر قرار دیا۔
دہشت گردی اور اس کے اثرات
رانا امیر احمد خاں نے تقریر جاری رکھتے ہوئے اور دہشت گردی کے حوالے سے بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ عام طور پر یہی ہوتا ہے کہ کسی طبقے کے بنیادی حقوق کی دیدہ دانستہ پامالی، دہشت گردی کو جنم دیتی ہے۔ اس دہشت گردی کے پیچھے کوئی نہ کوئی اخلاقی جواز موجود ہوتا ہے لہٰذا اگرپْر خلوص ڈائیلاگ کا آغاز کیا جائے، مشتعل طبقات کی بات کو ٹھنڈے دل سے سْنا جائے اور ان کے پامال حقوق کی بحالی کے لیے اقدامات کئے جائیں تو انہیں مین سٹریم میں شامل کر کے ایسی دہشت گردی کو ختم کیا جا سکتا ہے۔
رانا امیر احمد خاں نے کہا کہ دہشت گردی کی دوسری قسم وہ ہے جس میں بندوق کی نوک پر ایک طبقہ اپنے نظریات دوسرے طبقات پر ٹھونسنے کی کوشش کرتا ہے یا پھر لوگوں کی اکثریت کی مرضی کے خلاف طاقت کے زور پر اپنی پسند کا کوئی نظام نافذ کرنا چاہتا ہے۔ یہ دہشت گردی جمہوری معاشروں میں ناقابلِ قبول ٹھہرنی چاہیے۔
لوگوں کے حقِ رائے دہی سے انکار یا ان کے جمہوری مینڈیٹ کو طاقت کے بل بوتے پر تسلیم کرنے سے پس و پیش کرنا بھی دہشت گردی کو جنم دیتا ہے لہٰذا ہمیں دہشت گردی پر بات کرتے ہوئے اس تیسری قسم کو بھی نظر میں رکھنا چاہیے اور مداوا کرنے کے لئے اقدامات کئے جانے چاہیئں۔ پاکستان، بھارت اور سری لنکا ایسی ہی دہشت گردیوں کی بنا پر اقتصادی پسماندگی کا شکار بنے ہوئے ہیں جبکہ ان ممالک سے بعد میں آزادی حاصل کرنے والے ممالک معاشی اور اقتصادی طورپر بہت آگے نکل گئے ہیں۔
آخری خیالات
رانا امیر خاں نے اپنی تقریر کے اختتام پر اس اْمید کا اظہار کیا کہ وکلاء کی ساؤتھ ایشیاء تنظیم اپنی اپنی حکومتوں کو اس سلسلے میں مؤثر اقدامات کرنے پر مائل کرے گی اور عدلیہ کی طاقت سے آمرانہ، غیر جمہوری قوانین کو ختم کروائے گی۔ ساؤتھ ایشیاء لائیرز کونسل اگر یہ اہم کردار نبھانے میں کامیاب ہو گئی تو یہ پاکستانی وکلاء تحریک کی کامیابیوں سے بڑھ کر تاریخی کامیابی ہو گی۔
(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں) ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔








