راولپنڈی اسٹیشن کی قدروقیمت انگریز دور میں بھی بہت تھی کیونکہ یہ مصروف چھاؤنی بھی تھی جہاں سے فوجیں سرحدی علاقوں میں بھیجی جاتی تھیں
مصنف
محمد سعید جاوید
یہ بھی پڑھیں: اب میں انچار ہوں، اچھے دوست بھارت کو 25 فیصد تک ٹیرف کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، ڈونلڈ ٹرمپ
قسط
321
یہ بھی پڑھیں: تہجد کی نماز پڑھتا ہوں، میرے لیے وہی می ٹائم ہے، فیشن ڈیزائنر منیب نواز
راولپنڈی (1881ء)
راولپنڈی ایم ایل مرکزی لائن پر ایک بڑی اور پاکستان کا مشہور اسٹیشن ہے۔ اس کی قدر و قیمت انگریز حکومت کے دور میں بھی بہت تھی کیونکہ یہ ایک مصروف چھاؤنی بھی تھی جہاں سے فوجیں سرحدی علاقوں میں بھیجی جاتی تھیں۔ ابھی بھی پاکستان کی مسلح افواج کا مرکز یعنی GHQ یہاں واقع ہے۔
جب اسلام آباد کو دارالخلافہ کا درجہ ملا تو اس اسٹیشن پر بہت دباؤ پڑا تھا کیونکہ کراچی سے اسلام آباد منتقل ہونے والے دفاتر کا عملہ بذریعہ ریل ہی کراچی سے راولپنڈی پہنچتا تھا۔ ان کا ابتدائی قیام بھی یہیں ہوتا تھا، بعد میں اسلام آباد میں اپنے دفاتر کی تعمیر مکمل ہونے کے بعد وہ وہاں منتقل ہو جاتے تھے۔ یہ اسٹیشن اپنی مکانیت کے لحاظ سے بہت بڑا ہے، اس میں پانچ پلیٹ فارم ہیں اور یہاں سے گاڑیاں پشاور، حویلیاں اور کوہاٹ کے علاوہ مختلف اطراف کو جاتی ہیں۔ اس کی عمارت بھی وکٹورین طرز پر پتھروں سے تعمیر ہوئی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: دہشت گردی کا خطرہ، کوئٹہ سمیت بلوچستان کے اکثر علاقوں میں انٹرنیٹ بند
روہڑی جنکشن (1878ء)
اس اسٹیشن نے 2 تاج اپنے سر پرسجائے ہوئے ہیں۔ ایک تو یہ کہ یہ موجودہ پاکستان کا پہلا، بڑا اور مصروف جنکشن رہا ہے اور دوسرا، اس علاقے میں باقاعدہ مسافر گاڑیاں لاہور سے روہڑی تک چلائی گئیں تھیں۔ بعد میں کوٹری کا پل اور کوٹری-روہڑی لائن مکمل ہونے پر کراچی سے پشاور تک گاڑیاں چلنے لگیں۔ کوئٹہ جانے کے لیے بھی یہیں سے ایک ریلوے لائن ایم ایل-3 نکلتی ہے۔
اس کا پلیٹ فارم پاکستان کے کسی بھی اسٹیشن کے پلیٹ فارم سے طویل ترین ہے، جس کی لمبائی تقریباً 1900 فٹ یعنی آدھے کلومیٹر سے بھی زیادہ ہے۔ مستقبل میں طاقتور انجن آ رہے ہیں جو زیادہ ڈبے اور طویل مال گاڑیاں کھینچنے کے اہل ہیں، لہذا ممکن ہے کہ کسی وقت روہڑی کی طرح دوسرے اسٹیشنوں کے پلیٹ فارموں کی لمبائی بھی بڑھانا پڑے۔
یہ بھی پڑھیں: عافیہ صدیقی اور عمران خان کی جیل پر امریکہ میں اسحاق ڈار کی گفتگو
پدگ روڈ اسٹیشن (1905ء)
کوئٹہ تفتان روڈ پر ایک اجاڑ سے مقام پر بنے ہوئے اس اسٹیشن کی خاصیت یہ ہے کہ یہ کسی قبیلے کے سردار کے بنائے ہوئے ذاتی قلعے کے اندر واقع ہے۔ گاڑی اس کے بیرونی دروازے کے ساتھ سامنے سے گزرتی ہے، جبکہ اسٹیشن کی عمارت قلعے کے اندر ہی رہائشی علاقے میں واقع ہے۔ اس اسٹیشن کے آس پاس ریت کے شدید طوفان آتے ہیں، اور اکثر ریل گاڑی کو وہاں ٹھہر کر پٹری کے صاف ہونے کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔
فورٹ عباس (1928ء)
بہاول نگر کے فورٹ عباس کی متروک لائن پر ریت میں دبا ہوا ایک اجاڑ اور مسکین سا اسٹیشن ہے، جو اب ایک ڈھانچے کی شکل میں موجود ہے۔ یہ اس لائن کا سب سے آخری اسٹیشن ہے، اس کے بعد یہاں سے کوئی آٹھ کلومیٹر دور عظیم صحرائے چولستان شروع ہو جاتا ہے اور اس کے کچھ آگے ہی ہندوستان کی سرحدیں آن لگتی ہیں۔ لیکن تباہ شدہ عمارت، ٹوٹے پھوٹے پلیٹ فارم اور جگہ جگہ پٹریوں کے بکھرے ہوئے فولادی ڈھانچوں کے باوجود، یہ اسٹیشن مجھے بہت عزیز ہے کیونکہ یہ میرا اپنا اسٹیشن ہے۔
(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں) ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔








