27ویں آئینی ترمیم میں کسی کو اعتماد میں نہیں لیا گیا، مولانا فضل الرحمان کھل کر بول پڑے
فضل الرحمان کا بیان
اسلام آباد (ڈیلی پاکستان آن لائن) جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ 27ویں آئینی ترمیم میں کسی کو اعتماد میں نہیں لیا گیا۔ اس ترمیم میں بعض شخصیات کو ایسی سہولتیں و مراعات دی گئیں، جو کہ طبقاتی تقسیم کا باعث ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: وفاقی محتسب کا ایبٹ آباد کا دورہ، غریب عوام تک انصاف ان کی دہلیز پر پہنچا یا جا رہا ہے: اعجاز احمد قریشی
ترمیم کا تجزیہ
''جنگ'' کے مطابق قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران اظہار خیال کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ اس ترمیم میں بعض شخصیات کو ایسی سہولتیں و مراعات دی گئیں، جس کو خدمات کا صلہ نہیں بلکہ طبقاتی تقسیم سمجھا جانا چاہیے۔ قوم نے ان ترامیم کو قبول نہیں کیا، اور یہ ضروری ہے کہ آئین متنازع نہ ہو۔ یہ ترمیم اسی طرح متنازع ہوگی جیسے 18ویں ترمیم سے پہلے کی ترامیم۔
یہ بھی پڑھیں: محکمہ موسمیات کی ملک کے بیشتر علاقوں میں موسم شدید سرد رہنے کی پیشگوئی
تاریخی پس منظر
انہوں نے مزید کہا کہ سال 1973 میں ذوالفقار علی بھٹو کے پاس دو تہائی اکثریت تھی، وہ آئین میں ترمیم کر سکتے تھے مگر ان کی جانب سے مذاکرات کیے گئے۔ 9 ماہ کی محنت کے بعد 18ویں ترمیم تیار کی گئی تو یہ احساس ہوا کہ ہماری جماعتیں اختلاف کے باوجود اکٹھی ہوسکتی ہیں۔ دوسری طرف، 26ویں آئینی ترمیم کے وقت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) شامل نہیں تھی، اور ہم انہیں اس ترمیم کے بارے میں مطلع کیا کرتے تھے۔
اقلیتوں کے حقوق کا کمیشن
واضح رہے کہ پارلیمنٹ نے مشترکہ اجلاس میں اقلیتوں کے حقوق کے کمیشن قائم کرنے کا بل منظور کر لیا ہے۔








