وہ صاحب بنے نہ کبھی میں ماتحت رہا، یہ دل کا دل سے محبت اور احترام کا رشتہ تھا جو آج بھی ہے،وہ خوبصورتی سے پیارکرتے خواہ وہ کسی صورت بھی ہو
مصنف کی معلومات
مصنف: شہزاد احمد حمید
قسط: 368
لاہور کا ایک نجی ادارہ
یہ بھی پڑھیں: ابھی تو روس نے ٹھیک سے جواب ہی نہیں دیا، امریکہ نے یوکرین کیلئے خطرے کی گھنٹی بجا دی
ادارے کا پس منظر
یہ ایسا ادارہ تھا جو اپنے ماحول، خوبصورت میزبانوں اور خوشنمائی سے لوگوں کو جال میں اتارتا اور امریکہ اور دوسرے ترقیاتی ممالک بھیجنے کا جھانسہ دے کر لوٹتا تھا۔ کچھ افراد کے ویزے بھی لگے جن کی تصاویر دفتر کے باہر بل بورڈ کی زینت بنی تھیں۔ راجہ ریاض جو ایم پی اے تھے، وہ بھی اس جال میں الجھ کر 10 لاکھ کا دھوکہ کھا آ ئے تھے۔ شیر پاؤ برج لاہور کے قریب ہی ان کا دفتر ہر آنے والے کو پھانس ہی لیتا تھا۔ اس ادارے کے مالک کا نام میرے ذہن سے نکل گیا (اس کی بیگم مخصوص نشست پر ایم پی اے تھی)۔ مالک کا اعتماد دیکھنے لائق ہوتا، وہ کبھی امریکہ کے وزیر خارجہ سے بات کرتا تو کبھی برطانیہ کے اور کبھی پاکستانی سیکرٹری خارجہ سے۔ یہ ساری کاروائی کسی بھی عام شخص کو جال میں اتارنے کے لیے بہت تھی۔ اس شخص نے تقریباً پانچ چھ سال میں 4 ہزار افراد سے فی کس 10 لاکھ روپے امریکی ویزہ لگوانے کا لیا اور پھر رفو چکر ہوگیا۔ ایک اخبار کا نمائندہ اس کے لیے کام کرتا تھا جبکہ شنید یہ تھی کہ سبھی کو حصہ جاتا تھا۔ حکومت اس کے خلاف کوئی بھی کاروائی نہ کر سکی تھی۔ بات سمجھ کی ہے؟
یہ بھی پڑھیں: وفاقی حکومت کے اداروں کی رائٹ سائزنگ، فیصلوں پر عملدرآمدشروع
صاحب کے ساتھ وقت کا تجربہ
صاحب کے ساتھ وقت دوستوں کی طرح گزرا۔ نہ کبھی وہ صاحب بنے اور نہ کبھی میں ماتحت رہا۔ یہ دل کا دل سے محبت اور احترام کا رشتہ تھا جو آج بھی ہے۔ وہ خوبصورتی سے پیار کرتے تھے خواہ وہ کسی صورت بھی ہو۔ کتاب ہو، فلسفہ ہو، قلم ہو، مورت ہو یا قدرت۔ انکار کرتے نہیں تھے اور اقرار سے اجتناب کرتے۔ ان کی زندگی کا المیہ یہ ہے کہ فنون لطیفہ کے آدمی تھے، سیاست کی نذر ہو گئے۔ ایک بات مجھے کہا کرتے تھے کہ کسی سے بھی توقع مت رکھو۔ میں نے یہ بات سیکھی ہی نہیں، پلے باندھ لی۔ صاحب موجود بھی ہوں تو کئی بار نظر نہیں آتے۔ ماضی میں رہنا پسند کرتے ہیں اور ماضی کی صورتوں کو حال میں دیکھنے کے عادی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: سونے کی قیمت میں حیران کن اضافہ!
تلخ اور شیریں یادیں
وقت گزر جاتا ہے، یادیں رہ جاتی ہیں۔ تلخ بھی، شیریں بھی۔ عجیب اتفاق ہے تلخ ہی یاد رہتی ہیں۔ صاحب کے ساتھ 5 سالہ قربت میں ایک بھی ذاتی کام نہیں لیا۔ بس دوستوں عزیزوں کی سفارشیں ضرور کیں، صاحب نے کبھی انکار بھی نہیں کیا۔ جان پہچان نہ ہوتے بھی لوگوں کو نوکریاں دلوائیں۔ یاروں دوستوں کی مدد یہ سوچ کر کرتا رہا کہ اللہ نیکی کا موقع ہر کسی کو نہیں دیتا۔ صاحب کو نہ کبھی بیچا نہ ہی ان کی پوزیشن کا کوئی ناجائز فائدہ اٹھایا اور نہ ہی میرا کوئی قول و فعل ان کی عزت و احترام میں کمی کا باعث بنا۔ اگر صاحب نے چھوٹا بھائی سمجھا تو میں نے بھی آخر دم تک نمک حلالی کی، وفاداری نبھائی۔ یہی وجہ ہے کہ صاحب کے پاس 2019ء میں وزیر بلدیات کا اضافی چارج کوئی 6 ماہ رہا تب بھی اُن کی سٹاف افسر کے لیے نظر انتخاب مجھ پر ہی پڑی تھی۔ سچ اور بھروسہ لازوال ہوتے ہیں۔(جاری ہے)
کتاب کی اشاعت
نوٹ: یہ کتاب "بک ہوم" نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں) ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔








