چائے بنانے کے لیے چولہا جلایا تو آگ سارے ڈبے میں بھڑک اٹھی، ڈرائیور نے گاڑی روکی مگر تب تک بہت نقصان ہو چکا تھا، جلتے ہوئے ڈبوں کو علیٰحدہ کیا گیا۔
حوادث کا سلسلہ
مصنف: محمد سعید جاوید
قسط: 327
جعفر ایکسپریس کا حادثہ
نومبر 2015ء میں بلوچستان کے قصبے آبِ گْم میں جعفر ایکسپریس پٹری سے اْتری اور 20 افراد کی موت کا سبب بنی۔ کہا جاتا ہے کہ کوئٹہ سے آتے وقت نشیب میں اْترتے ہوئے یہ گاڑی اپنی رفتار پر قابو نہ پا سکی اور اسٹیشن پر رکے بغیر آگے بڑھتی گئی۔ اسٹیشن کے عملے نے صورت حال کی سنگینی کو سمجھتے ہوئے اس کا رخ کیچ سائیڈنگ لائن کی طرف موڑ دیا، جس پر چڑھتے ہی یہ گاڑی اْلٹ گئی۔ کچھ لوگوں کا یہ بھی خیال ہے کہ یہ بلوچستان میں چھپے ہوئے دہشت گردوں کی کارروائی تھی جنھوں نے پٹری کو بارودی مواد سے اْڑا دیا تھا۔
دوسرا حادثہ: بہاؤ الدین زکریا ایکسپریس
ٹھیک ایک سال بعد یعنی نومبر 2016ء میں کراچی کے لانڈھی ریلوے اسٹیشن پر بہاؤ الدین زکریا ایکسپریس وہاں پہلے سے کھڑی ہوئی فرید ایکسپریس سے ٹکرا گئی اور یوں 21 لوگ دنیا چھوڑ گئے۔
اکبر ایکسپریس کا حادثہ
جولائی 2019ء میں صادق آباد کے قریب ولہر اسٹیشن پر اکبر ایکسپریس اسٹیشن پر پہلے سے کھڑی ہوئی ایک مال گاڑی سے ٹکرا کر 21 لوگوں کی موت کا سبب بن گئی۔
تیزگام ایکسپریس کا خوفناک حادثہ
اسی سال اکتوبر 2019ء میں رحیم یار خان پنجاب میں پاکستان ریلوے کی تاریخ کا سب سے خوفناک حادثہ پیش آیا جب پوری رفتار سے بھاگتی ہوئی بدقسمت تیزگام ایکسپریس میں آگ لگ گئی اور اس میں 2 بوگیاں مکمل طور پر جل کر راکھ ہو گئیں۔ اس حادثے میں کوئی 75 کے قریب مسافر جل کر اس طرح بھسم ہوئے کہ ان کی شناخت بھی نہ کی جاسکی۔ انکوائری سے ثابت ہوا کہ کچھ مسافروں نے غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کیا اور وہ ڈبے میں گیس کے سلنڈروں والے چولہے لے آئے تھے۔ جب ایک نے چائے بنانے کے لیے چولہا جلایا تو گیس کی آگ سارے ڈبے میں بھڑک اٹھی۔
سکھ یاتریوں کا حادثہ
جولائی 2020ء میں سکھ یاتریوں سے بھری ہوئی ایک بس ایک لیول کراسنگ پر ڈرائیور کی جلد بازی کی بدولت برانچ لائن پر چلنے والی شاہ حسین پسنجر گاڑی سے ٹکرا گئی جس میں 20 غیرملکی افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
ڈھرکی کے قریب حادثہ
ابھی یہ کتاب زیر ترتیب ہی تھی کہ 7 جون 2021ء کو ایک بار پھر ضلع گھوٹکی کے اسٹیشن ڈھرکی کے قریب 2 گاڑیوں کے تصادم میں 65 سے زیادہ لوگ موت کی آغوش میں چلے گئے۔ یہاں سرگودھا جانے والی ملت ایکسپریس کے کچھ ڈبے پٹری سے اتر کر ڈاؤن ٹریک پر جاگرے جس پر سر سید ایکسپریس پوری رفتار سے آ رہی تھی جو ان ڈبوں سے جا ٹکرائی۔ ریلوے حکام کی طرف سے ہمیشہ یہ کہا گیا ہے کہ اس علاقے میں پٹری بہت کمزور ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ اس کمزور پٹری کو ٹھیک کرنے کے لیے محکمے نے کیا کیا۔ یہ پاکستان میں اپنی نوعیت کا چوتھا بڑا حادثہ تھا جس میں 2 یا زیادہ گاڑیاں اس طرح بیک وقت ملوث ہوئیں۔
(جاری ہے)
نوٹ:
یہ کتاب "بک ہوم" نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں) ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔








