پاکستانی طبی ماہرین چین کے ساتھ صحت کے شعبے میں روابط مضبوط بنا رہے ہیں۔
پاکستانی ڈاکٹر کا چین میں طبی جدتوں کی تلاش
گوئی یانگ(شِنہوا) پاکستانی ڈاکٹر محمد شہباز نے چین کی طبی جدتوں کو ایک صحت مند پاکستان کی تعمیر میں استعمال کرنے کو اپنا مشن بنا لیا ہے۔ وہ تقریباً 2 دہائیوں سے تعلیم اور کام کے لیے چین میں مقیم ہیں۔ چین کے جنوب مغربی شہر چھونگ چھنگ میں فرنٹیئرز آف ڈیویلپمنٹل سائنسز (ایف ڈی ایس) کنسورشیم کے بین الاقوامی تعاون کے شعبے کے سربراہ کے طور پر 38 سالہ پاکستانی طبی ماہر ریڈیو تھراپی لینیئر ایکسیلریٹر کینسر ٹیکنالوجی کے جدید ترین شعبوں میں کام کر رہے ہیں۔ ان کا مقصد چین، پاکستان اور دیگر ممالک کے سائنس دانوں اور ڈاکٹروں کے درمیان علم کے تبادلے اور مشترکہ اختراع کے لئے ایک پل کا کردار ادا کرنا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: لاہور کے بڑے سرکاری ہسپتال میں شرمناک واقعہ، غیر تربیت یافتہ اور غیر متعلقہ شخص کے ہاتھوں خاتون کا پوسٹمارٹم
چین کے روایتی طب کا خزانہ
حالیہ دنوں میں چین کے جنوب مغربی صوبہ گوئی ژو کے شہر زون یی میں روایتی طب کے ایک بین الاقوامی فورم میں شہباز نے کہا کہ چین کے پاس روایتی چینی طب کا 5 ہزار سال سے زائد کا ذخیرہ ہے اور اب اس کے پاس اے آئی اور بگ ڈیٹا جیسے شعبوں میں بھی نمایاں برتری موجود ہے۔
یہ بھی پڑھیں: لاہور میں بچے کو استعمال کرکے لوگوں کو ہنی ٹریپ کرنے والی خاتون کا گینگ پکڑا گیا
تعلیم سے بلند مقام تک
انہوں نے کہا کہ ٹیلی میڈیسن، روایتی اور جدید چینی طب کے امتزاج اور جدید سرجیکل تکنیکوں میں چین نے شاندار ترقی کی ہے۔ پاکستان کے شہر سرگودھا سے تعلق رکھنے والے شہباز پہلی بار 2006 میں اپنی ابتدائی تعلیم حاصل کرنے چین آئے۔ بعدازاں انہوں نے 2020 میں شان ڈونگ یونیورسٹی کے چھی لو ہسپتال سے سرجری میں پی ایچ ڈی مکمل کی۔
یہ بھی پڑھیں: مصر میں کچے نو ڈلز کھانے سے 13سالہ حافظ قرآن بچہ انتقال کر گیا
پاک-چین میڈیکل ایسوسی ایشن کا قیام
2021 میں شہباز نے پاک-چین میڈیکل ایسوسی ایشن کی بنیاد رکھی جو طبی تبادلے کا ایک ایسا پلیٹ فارم بن چکی ہے جو دونوں ممالک میں طبی تعلیم، تحقیق اور ڈیجیٹل ہیلتھ کے شعبوں میں تعاون کے لیے اہم کردار ادا کر رہی ہے۔ یہ ایسوسی ایشن تربیت یافتہ طبی عملے کے تبادلے کے منظم پروگراموں میں فعال ہے جس کے تحت پاکستانی ڈاکٹروں اور فارغ التحصیل نوجوان طلباء کو چینی ہسپتالوں میں اعلیٰ تربیت فراہم کی جا رہی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: سیلاب سے متاثر ہونے والے متوقع اضلاع میں ہائی الرٹ کر دیا: مریم اورنگزیب
صحت کی رسائی کی چیلنجز اور حل
شہباز نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ایک ایسے ملک میں جہاں ماہر ڈاکٹر بڑے شہروں میں مرتکز ہیں اور آبادی کا ایک بڑا حصہ دیہی یا دور دراز علاقوں میں رہتا ہے، وہاں صحت تک رسائی میں زمینی فاصلے سب سے بڑا چیلنج ہیں۔ ٹیلی میڈیسن کی ٹیکنالوجی ان رکاوٹوں کو ختم کر دیتی ہے۔ یہ لاہور میں بیٹھے ڈاکٹر کو سندھ کے ایک گاؤں کے مریض سے رابطہ کرنے کی سہولت دیتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: سپریم جوڈیشل کونسل کا اجلاس ،اسلام آبادہائیکورٹ کے6 ججز کے خط پر مشاورت
جدید ٹیکنالوجی کی اہمیت
شہباز کے مطابق ایک چینی کمپنی کا تیار کردہ اے آئی امیجنگ نظام سی ٹی سکین، ایکسرے اور ایم آر آئی کا حیرت انگیز رفتار اور درستگی کے ساتھ تجزیہ کر سکتا ہے جو مصروف ریڈیالوجسٹس کو تپ دق اور پھیپھڑوں کے کینسر جیسی بیماریوں کی بروقت تشخیص میں مدد دیتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ڈمپرز ایسوسی ایشن کا عیدالاضحیٰ پر کراچی سے آلائشیں نہ اٹھانے کا اعلان
مستقبل کے منصوبے
شہباز نے بتایا کہ "سیڈنگ دی فیوچر" فزیشن ایکسچینج پروگرام کو بیلٹ اینڈ روڈ انٹرنیشنل میڈیکل ایجوکیشن الائنس اور بیلٹ اینڈ روڈ میڈیکل ڈیوائس انوویشن ایپلی کیشن الائنس کے پلیٹ فارموں کے ذریعے نمایاں طور پر توسیع دی جا رہی ہے۔ یہ اقدام مختصر مشاہداتی پروگراموں سے آگے بڑھ کر پاکستانی ڈاکٹروں کے لئے آنکولوجی، کارڈیالوجی اور سرجری میں ایک سالہ خصوصی فیلوشپس قائم کر رہا ہے۔
طبی جدت کی راہ میں آگے بڑھنا
مستقبل کے حوالے سے شہباز نے کہا کہ ان کا ذاتی طویل مدتی مقصد پاکستان میں جدید ترین نیوٹران میڈیکل سنٹر اور ماڈل ہسپتال قائم کرنا ہے جس کے ساتھ چین-پاکستان اقتصادی راہداری کے ساتھ ایمرجنسی کلینکس کا ایک سلسلہ بھی شامل ہوگا۔








