اکبر کو ہندو دانشور برصغیر کا پہلا سیکولر بادشاہ قرار دیتے ہیں، متعصب ہندو جاٹوں نے یہ سلوک کیا کہ مرنے کے بعد بھی تہہ خاک چین سے سونے نہ دیا۔
مصنف:
رانا امیر احمد خاں
یہ بھی پڑھیں: حکومت اور اپوزیشن کے درمیان مذاکرات، سپیکر ایاز صادق سہولت کاری کیلئے تیار
قسط:
244
یہ بھی پڑھیں: ملک مزید انتشار کا متحمل نہیں ہو سکتا، سیاست میں اختلاف ہوسکتا ہے دشمنی نہیں، چیئرمین پی ٹی آئی
سکندرا میں مزار اکبر اعظم اور اجڑا ہوا باغِ بہشت
اگلے دن صبح ٹھیک 10 بجے ہمارا قافلہ آفتاب میاں کی بْک کروائی گئی فلائنگ کوچ میں آگرہ کا تاج محل دیکھنے کے لیے روانہ ہوا۔ دہلی آگرہ کا فاصلہ 200 کلومیٹر ہے۔ دہلی سے آگرہ جاتے ہوئے دو صوبوں کا سفر کرنا پڑتا ہے۔ دہلی سے نکل کر اگلا قابلِ ذکر شہر فرید آباد ہے جو کہ اگلے صوبے ہریانہ کا داخلی شہر ہے۔ جبکہ آگرہ صوبہ اترپردیش (یو پی) کا حصہ ہے۔
یہ بھی پڑھیں: میں کمانڈ فیصلوں کے لیے ChatGPT استعمال کرتا ہوں، امریکی جنرل کا انکشاف
مزار اکبر اعظم
تقریباً 4 گھنٹے کے سفر کے بعد ڈرائیور نے آگرہ سے تقریباً 8 کلومیٹر پہلے سکندرا کے مقام پر ایک ویران سے پارک میں موڑ کر گاڑی کو کھڑا کر دیا اور کہا یہاں مغل بادشاہ اکبر اعظم کا مزار ہے۔ اس جگہ کو سکندرا کہتے ہیں۔ اکبر بادشاہ نے اپنی زندگی ہی میں یہ جگہ اپنے ابدی آرام کے لیے منتخب کی تھی اور 1602ء میں اپنے مقبرے کی تعمیر بھی خود شروع کروائی تھی لیکن اس کی چار منزلوں میں سے ابھی 3 منزل ہو پائی تھیں کہ 1605ء میں بادشاہ کو موت کا بلاوا آ گیا۔
یہ بھی پڑھیں: امریکی صدارتی الیکشن: بل گیٹس کا کملا ہیرس کی مہم کیلئے 50 ملین ڈالر کا عطیہ
اکبر اعظم کی قبر
عمارت کے نیچے زمین کے اندر بادشاہ نے ایک ہوا دار تہہ خانہ بھی بنوایا تھا۔ بادشاہ کو اس تہہ خانے میں سپردخاک کیا گیا۔ بعدازاں شہنشاہ جہانگیر نے اس مقبرے پر چوتھی منزل تعمیر کروائی۔ اکبر بادشاہ کا یہ مقبرہ 1613ء میں مکمل ہوا۔ اس پر ایک تخمینے کے مطابق اُس وقت 15 لاکھ روپے لاگت آئی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: بھارت میں کرکٹ میچ کے دوران پاکستان زندہ باد کے نعرے لگ گئے
باغ بہشت
اس مقبرے کے گرد ڈیڑھ سو ایکڑ رقبہ پر پھیلا ہوا ایک رنگارنگ پھولوں اور ثمردار درختوں بھرا باغ لگایا گیا۔ اس بہار آفرین باغ کو باغ بہشت کے نام سے جانا پہچانا جاتا تھا۔ لیکن اب وہاں ویرانی پھیلی ہے جو بھارتی حکومت اور متعلقہ محکموں کی غفلت، لاپروائی اور بے حسی پر نوحہ کناں ہے۔
یہ بھی پڑھیں: اسٹیبلشمنٹ کو تشدد کا آئینی اختیار حاصل ہے: سہیل وڑائچ
نظارہ
مزار کے صدر دروازے سے عمارت کے اندر داخل ہوتے ہیں تو سامنے ساٹھ ستر فٹ لمبی ڈھلوانی سرنگ دکھائی دی۔ اس نیم تاریک سرنگ کے اختتام پر موم بتی کی زرد روشنی اکبر اعظم کی قبر والے تہہ خانے میں جلتی نظر آئی۔ مقبرے سے باہر اجڑے ہوئے باغ میں واپس آئے تو باغ بہشت کی جنوبی طرف اس شیش محل کے کھنڈرات پھیلے ہوئے تھے جو شہنشاہ جہانگیر نے اپنی ملکہ نور جہاں کے لیے تعمیر کروایا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: پنجاب پولیس کی نفری کم کرنے کا فیصلہ، صحافی انور سمرا کا دعویٰ
خواتین کی قبریں
مقبرے کے پہلو میں بائیں جانب اکبر کی بیٹیوں اور اس کی ایک ملکہ رقیہ بیگم کی خستہ حال قبریں ہیں۔ ہم نے مڑ کر مقبرے کی عمارت کو ایک مرتبہ پھر دیکھا تو اس کے پامال حسن و جمال میں اب بھی ایک کشش اور خوبصورتی محسوس کی۔
تاریخی پس منظر
جس بادشاہ کو مؤرخ اور ہندو دانشور برصغیر کا پہلا سیکولر بادشاہ قرار دیتے ہیں، جس بادشاہ نے ہندو، سکھ، عیسائی، یہودی اور مسلمان قوموں کی یکجہتی کے لیے اپنا مذہب نظرانداز کر کے ایک نئے دین اکبری کی بنیاد رکھی، اسی بادشاہ کے ساتھ متعصب ہندو جاٹوں نے یہ سلوک کیا۔ کہ مرنے کے بعد بھی اسے تہہ خاک چین سے سونے نہ دیا۔ بھرت پور کے ہندو جاٹوں نے اپنے مختصر دورِ حکومت میں اس مقبرے پر حملہ آور ہو کر سب کچھ اکھاڑ پھینکا اور ہندو عورتوں سے شادی کر کے انہیں اپنی ملکہ بنانے کی "ناپاک" جسارت کرنے کی پاداش میں بادشاہ کی ہڈیاں قبر سے نکال کر ان کو گھوڑوں کے ٹاپوں تلے روندا اور نذرآتش کیا گیا تھا۔
(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب "بک ہوم" نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں) ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔








