ہم آگرہ قلعہ میں تھے،اسکاشیش محل بھی لاہور قلعے کے شیش محل جیسا تھا، سمن برج کے قریب شہنشاہ جہانگیر نے زنجیر عدل 1605ء میں آویزاں کروائی۔
مصنف: رانا امیر احمد خاں
قسط: 245
آگرہ قلعہ کی سیاحت
سکندرا سے فلائنگ کوچ میں دوبارہ سوار ہو کر اگلے پندرہ منٹوں بعد ہم آگرہ قلعہ میں تھے۔ کار پارکنگ میں فلائنگ کوچ پارک کرنے کے بعد ہم پختہ سڑک سے بلندی کی طرف جاتی ہوئی سرخ پتھر کی ایک لمبی راہداری پر چلتے ہوئے قلعہ کے صدر دروازے امر سنگھ گیٹ تک پہنچے۔
قلعے کے اہم دروازے
قلعے کا دوسرا بڑا دروازہ دہلی گیٹ اور ملحقہ قلعہ کا بڑا حصہ فوج کے قبضہ میں ہے۔ اوپر پہنچے تو دائیں ہاتھ سرخ اور سفید پتھروں والی خوبصورت عمارت دامن پھیلائے کھڑی تھی۔ اس عمارت کا نام جہانگیر محل ہے، جو اکبر بادشاہ نے اپنے بیٹے جہانگیر کے لیے تعمیر کروائی تھی۔
خاص محل اور دیوان خاص
اس کے بعد سفید سنگِ مرمر سے تعمیر کردہ خاص محل ہے جیسا کہ یہ اکبر بادشاہ کی بیگمات اور دوسری خواتین کے محرم کا درجہ رکھتا تھا۔ خاص محل سے آگے نکلیں تو سامنے دیوان خاص دکھائی دیتا ہے، جہاں بادشاہ اپنے وزیروں، مشیروں، حکماء، فوجی سپہ سالاروں اور حکومت کے خاص خاص حکام سے ملاقاتیں کرتے تھے۔ دیوان خاص کی بنیاد 1637ء میں شاہ جہاں نے رکھی تھی۔
شیش محل کی خصوصیات
دیوان خاص کے بعد شیش محل ہمارے سامنے تھا۔ آگرہ کا شیش محل بھی لاہور قلعے کے شیش محل جیسا تھا، لیکن اس کی خاص بات یہ تھی کہ اس میں ٹھنڈے اور گرم پانی کے الگ الگ حوض بنائے گئے تھے اور ترکش باتھ کی سہولت بھی موجود تھی۔
مساجد کی تفصیلات
قلعہ آگرہ میں 3 مساجد میں سے نگینہ مسجد شاہی محل میں شامل خواتین کے لیے خاص تھی، جبکہ سینا مسجد جو سفید سنگ مرمر سے بنی تھی، شاہ جہاں بادشاہ کے لیے مخصوص تھی۔ یہ دونوں مساجد اورنگ زیب عالمگیر نے تعمیر کروائیں۔ تیسری مسجد کا نام موتی مسجد ہے، جو شاہ جہاں نے 1647ء سے 1654ء کے درمیان دیوان عام کے قریب تعمیر کروائی تھی。
خصوصی مقامات
قلعہ آگرہ میں ہماری سب سے زیادہ دلچسپی اس مقام سے تھی جہاں سے بادشاہ شاہ جہاں تاج محل کا نظارہ کیا کرتا تھا۔ اس مقام کے کئی نام ہیں لیکن سمن برج، شاہ برج اور محمدن برج زیادہ مشہور ہیں۔ سمن برج وہ تاریخی مقام ہے جہاں شہنشاہ جہانگیر نے اپنی مشہور زنجیر عدل 1605ء میں آویزاں کروائی تھی۔
عدلِ جہانگیری کی اہمیت
جہانگیر نے اپنی یادداشتوں میں لکھا ہے کہ تخت نشین ہونے کے بعد اس نے جو پہلا شاہی حکم جاری کیا وہ زنجیر عدل سے متعلق تھا۔ مشہور سیاح ولیم ہاکنز نے اس زنجیر کا ذاتی طور پر مشاہدہ کیا اور اسے عوام الناس کی تکالیف و شکایات کو حل کرنے کا انوکھا طریقہ قرار دیا۔ یہی وجہ ہے کہ عدلِ جہانگیری ہندوستان کی تاریخ میں ایک سدا بہار افسانوی حیثیت رکھتا ہے، جو جدید خاندانوں کی آنکھوں میں آج بھی بسا ہوا ہے۔
(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں) ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔








