ڈی ایس پی کے ہاتھوں اہلیہ اور بیٹی کا قتل پولیس افسران کے لیے نئی مشکلات پیدا کر گیا
قتل کا معاملہ
لاہور (ویب ڈیسک) ڈی ایس پی عثمان حیدر کے ہاتھوں اہلیہ اور بیٹی کے قتل کا معاملہ پولیس افسران کے لیے نئی مشکل بن گیا ہے۔ پولیس کے اعلیٰ افسران ڈی ایس پی کے خلاف 302 کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کرنے میں شش وُپنج کا شکار ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: معرکہ حق کے بعد کشمیر کاز دوبارہ زندہ ہوگیا، کشمیری کبھی بھی اپنے حق خودارادیت سے دستبردار نہیں ہوں گے، انجینئرامیر مقام
پولیس کی خاموشی
ایکسپریس نیوز کے مطابق اہلیہ اور بیٹی کے قتل کے معاملے میں پولیس تاحال ڈی ایس پی عثمان حیدر کے خلاف قتل کا مقدمہ درج نہیں کرسکی۔ 3 روز گزرنے کے باوجود پولیس اور پراسیکیوشن کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکے ہیں۔ گزشتہ روز پولیس مدعی خاتون کو لے کر پراسیکیوٹر جنرل کے پاس بھی پیش ہوئی، تاہم پراسیکیوشن کے 2 سرکاری وکلا بھی تاحال کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: جونیئر جناح ٹرسٹ کا برما ٹاؤن میں “زیرو آؤٹ آف اسکول چلڈرن” ماڈل پراجیکٹ کا آغاز، پہلے مرحلے میں 360 بچوں کی انرولمنٹ
مقدمہ کی درخواست
پولیس نے فی الحال مدعی پارٹی کی اندراج مقدمہ درخواست بھی وصول نہیں کی ہے۔ واضح رہے کہ مقتولین کی شناخت لواحقین کے ڈی این اے ٹیسٹ سے ہوئی تھی اور پولیس کے پاس صرف ڈی ایس پی کا اعتراف جرم کا بیان ہے۔ مقتولین کے ابتدائی پوسٹ مارٹم رپورٹ میں موت کی وجہ معلوم نہیں ہوسکی تھی جب کہ پولیس نے تاحال لواحقین کو لاشیں بھی وصول نہیں کروائی ہیں۔
مدعیہ کی شکایت
مدعیہ کا الزام ہے کہ پولیس 3 روز سے اعلیٰ افسران کے دفاتر کے چکر لگوا رہی ہے اور ہمیں کچھ نہیں بتایا جارہا ہے کہ پولیس نے عثمان حیدر کے ساتھ کیا کرنا ہے۔








