ریلوے اسٹیشنوں پر 2 مٹکے ایک دوسرے سے کچھ فاصلے پر رکھے ہوتے، ایک پر موٹے حروف میں لکھا ہوتا: ”ہندو پانی“ اور دوسرے پر ”مسلمان پانی“
مصنف کا تعارف
مصنف: ع غ جانباز
قسط: 2
یہ بھی پڑھیں: کرینہ کپور سے نکاح کیا تھا، وہ میری بیوی رہی ہیں، مفتی عبد القوی کا دعویٰ
میرے جنم بھومی کی داستان
میری پیدائش مشرقی پنجاب متحدہ ہندوستان میں 1930ء کی دہائی میں ہوئی۔ اُس دور میں گھروں میں لیٹرین بنانے کا رواج نہیں تھا۔ سبھی زن و مرد رفع حاجت کے لیے باہر زرعی رقبوں کی طرف نکل جاتے۔
یہ بھی پڑھیں: بجلی چور معیشت کے لیے سنگین خطرہ، قومی ترقی میں بھی رکاوٹ ڈال رہے ہیں: سی ای او لیسکو رمضان بٹ
نہانے کا طریقہ
باقی رہا نہانے کا معاملہ، تو گھروں میں غسل خانے بنانے کا بھی رواج نہیں تھا۔ مرد حضرات اور بچّے باہر زرعی رقبوں میں کنوؤں پر جا کر نہاتے جہاں بیلوں کو جوت کر چمڑے کے بنے ہوئے "چڑس" کے ذریعے کنوئیں سے پانی نکالا جاتا اور ساتھ ہی بنے ایک چوکور حوض میں گرایا جاتا۔ جو نہانے والے حوض میں بیٹھے ہوتے، پانی پہلے اُن کے بدن پر گرتا اور پھر آگے نالوں میں سے ہوتا ہوا اُس کھیت میں چلا جاتا جسے سیراب کرنا مقصود ہوتا۔
یہ بھی پڑھیں: شہناز گل کو کالج کی طالبہ نے بوسہ دے دیا
مسجدوں کے غسل خانے
اِس کے علاوہ گاؤں کی ہر مسجد میں بھی تین چار غسل خانے موجود ہوتے جو مسجد کے صدر دروازے کے ساتھ بنائے جاتے تھے۔ اُن میں پانی کا انتظام یوں کیا جاتا کہ چمڑے کے بنے چھوٹے "بوکے" کی مدد سے دس پندرہ لیٹر پانی کنوئیں سے نکال کر غسل خانے کے اوپر بنے ٹب یا ٹینکی میں گرا دیا جاتا۔ اِس طرح حسب ضرورت پانی استعمال کر کے نہا لیا جاتا۔
یہ بھی پڑھیں: پاک افغان تعلقات کیسے بہتر ہو سکتے ہیں؟ ویڈیو تجزیہ
گاؤں کی زندگی
بعض اوقات جوہڑوں میں جانوروں کو نہانے کے لیے لے جانے والے مرد حضرات یا بچّے بھی اُس میلے پانی میں چلے جاتے اور جانوروں کو نہلاتے وقت گندے پانی سے خود اُن کے بدن بھی گندے ہوجاتے، چنانچہ واپس آکر وہ ساتھ لائے ہوئے صاف پانی سے اپنا بدن صاف کرتے یا کسی غسل خانے میں جا کر نہا لیتے۔
یہ بھی پڑھیں: ایکسپورٹ فیسلیٹیشن اسکیم چوری کا ذریعہ بن گئی، حکومت کو 25 ارب کا نقصان: چیئرمین پی سی ڈی ایم اے
عورتوں کا غسل کرنے کا طریقہ
اب رہا عورتوں کے غسل کرنے کا معاملہ، تو اُن کا ایک رائج طریقہ تھا کہ گھر میں لمبے رُخ چارپائی کھڑی کر کے اُس پر چادر ڈال دی جاتی اور پھر اُس کی اوٹ میں بیٹھ کر بالٹی یا کسی اور کھلے برتن میں پانی ڈال کر نہایا جاتا۔
یہ بھی پڑھیں: اسرائیل کا ایران پر حملے کا منصوبہ بےنقاب
پانی کی رسد
گھروں میں استعمال کے لیے پانی "ماشکی" لاتے۔ وہ چمڑے کی بنی "مشکوں" میں ڈال کر پانی لاتے اور گھر میں رکّھے گھڑوں میں ڈال دیتے۔ گاؤں میں چند کنوئیں بھی تھے۔ جہاں سے استعمال کے لیے پانی نکال کر لایا جاتا تھا۔ باقی شہروں میں پانی نلکوں سے آتا تھا اور ریلوے اسٹیشنوں پر پانی سے بھرے مٹی کے 2 مٹکے ایک دوسرے سے کچھ فاصلے پر رکھّے ہوتے تھے۔ ایک پر موٹے حروف میں لکھا ہوتا: "ہندو پانی" اور دوسرے پر "مسلمان پانی"، یعنی بس اپنی حدود میں رہیے۔
یہ بھی پڑھیں: لاہور: سموگ کی شدت، فضائی آلودگی میں خطرناک حد تک اضافہ، سانس لینا دشوار
موسمی حالات
جہاں ہم رہتے تھے، وہ علاقہ بارانی تھا۔ زرعی رقبوں کو ضرورت کے وقت پانی کنوؤں سے ہی دے دیا جاتا تھا لیکن پہاڑی سلسلوں سے قربت کی وجہ سے بارشیں بھی ہوتی رہتی تھیں۔ یہی وجہ تھی کہ اِس علاقے میں ایک کے بعد دوسرا برساتی نالہ ملتا ہے، کہیں چھوٹا، کہیں بڑا۔ زیادہ بارشوں کے زمانے میں بڑے نالوں میں طغیانی کی وجہ سے گذرنا مشکل ہوجاتا اور سکولوں میں بھی چھٹیاں ہوجاتیں یا حاضری کم رہتی۔
نوٹ
(جاری ہے)
یہ کتاب "بک ہوم" نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں) ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔








