گتّے کے کارخانے سے نکل کر فراٹے بھرتی گاڑیاں امرتسرمیں داخل ہو گئیں، لاہور کی ثقافتی زندگی کی جڑیں امرتسر کی تہذیبی مٹی سے پھوٹی ہیں

مصنف: Rana Amir Ahmad Khan

قسط: 252

امرتسر اور لاہور شہرمیں تہذیبی و ثقافتی مماثلت

بھاری بھرکم ناشتے کے بعد ہم سب لوگ نریندر سنگھ کا شکریہ ادا کرتے ہوئے ان کے خوبصورت گھر سے رخصت ہوئے اور اپنے میزبانوں کی گاڑیوں میں بیٹھ کر شہر میں مٹر گشت کرنے کے لیے نکلے۔ چند کلومیٹر چلنے کے بعد یہ گاڑیاں ایک پرانی حویلی نما گیٹ سے ایک عمارت میں داخل ہو گئیں۔ ہمارے دائیں ہاتھ پرانے زمانے کی فوجی بیرک جیسی ایک عمارت سر اٹھائے کھڑی تھی۔ نوجوان راج چرن سنگھ نے بتایا کہ یہ گتّے بنانے کا کارخانہ ہے جو ان کے خاندان کی ملکیت ہے۔ گتّے بنانے کا کام ان کے دادا نے شروع کیا تھا جو امرتسر کے مضافاتی علاقے سنگرانہ سے تعلق رکھتے تھے۔ گتّے کے کارخانے سے نکل کر فراٹے بھرتی ہوئی گاڑیاں جلد ہی امرتسر شہر میں داخل ہو گئیں۔

لاہور کی ادبی زندگی

ظفر علی راجا ہمیں بتانے لگے کہ لاہور کی ثقافتی اور ادبی زندگی کی جڑیں امرتسر کی تہذیبی مٹی سے پھوٹی ہیں۔ تصور ذہن میں لاہور کی بے شمار ادبی، علمی، سیاسی اور ثقافتی شخصیات کے چہرے ابھرنے لگے۔ ان میں صوفی غلام تبسم، اے حمید، عارف عبدالمتین، ڈاکٹر ایم ڈی تاثیر، مولانا ثنا اللہ امرتسری، ظہیر کاشمیری اور "جب امرتسر جل رہا تھا" کے مصنف خواجہ افتخار کے علاوہ بہت سی دینی اور علمی ہستیاں شامل تھیں۔ راولپنڈی سے مشہور سیاستدان شیخ مسعود صادق، اپنے مہربان دوست سٹیزن کونسل کے ساتھی، آبادی و ماحولیات کی کئی کتابوں اور ریسرچ رپورٹس کے مصنف پروفیسر نصیر اے چوہدری، کالم نگار اور شاعر عطا الحق قاسمی، سابق ایڈووکیٹ جنرل پنجاب اور چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ مرحوم خواجہ محمد شریف کا تعلق بھی امرتسر سے تھا۔ پاکستان کے تین دفعہ کے وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کا خاندان بھی تلاش روزگار میں کشمیر سے امرتسر آیا تھا اور امرتسر کے مضافاتی علاقے جاتی عمرہ کو اپنا ٹھکانہ بنا کر لوہے کے اوزار بنانے کا کام شروع کیا تھا۔ اس خاندان کے بزرگوں نے 1940ء میں امرتسر سے لاہور منتقلی کے بعد لوہے کے ٹوکے تیار کرنے کا کام کیا۔ برسوں کی محنت کے بعد 1960ء کے عشرے میں اتفاق فاؤنڈری کی بنیاد رکھی۔

گولڈن ٹمپل میں حاضری

تھوڑی دیر بعد ہم سب نے کار کی کھڑکی سے باہر دیکھا تو گولڈن ٹمپل کا سنہری کلس ہماری آنکھوں کے سامنے جگمگا رہا تھا۔ گولڈن ٹمپل میں داخل ہونے سے قبل اپنے میزبانوں کے ساتھ مشورہ ہوا کہ ہمارے پاس وقت کم ہے، آج ہی ہمیں 5 بجے شام سے قبل واپس لاہور جانے کے لیے واہگہ / اٹاری بارڈر پر پہنچنا لازمی ہے۔ ہجوم کی وجہ سے مرکزی عمارت تک پہنچتے پہنچتے ایک سے دو گھنٹے لگ سکتے ہیں۔ چنانچہ فیصلہ ہوا کہ گولڈن ٹمپل کی انتظامیہ کمیٹی کے دفتر جا کر ہمارا تعارف کروایا جائے۔ یہ کمیٹی بیرون ممالک سے آنے والے وفود کی وی آئی پی مہمان کے طور پر خصوصی راستے سے گولڈن ٹمپل کی زیارت کروانے کا اختیار رکھتی ہے۔ ہماری یہ سکیم کامیاب رہی نریندر سنگھ نے ہمیں مین دروازے کے ساتھ انفرمیشن آفس میں پہنچ کر ایک بااختیار آفیسر سے ہمارا تعارف کروایا۔ انہوں نے کرسی سے اٹھ کر خندہ پیشانی سے ہمارا استقبال کیا اور سٹیزن کونسل کے وفد کو وی آئی پی مہمانوں کا درجہ دیتے ہوئے اپنے دو ماتحتوں کو ہدایت جاری کی کہ وفد کے ارکان کو گولڈن ٹمپل کا دورہ کروائیں۔

(جاری ہے)

نوٹ: یہ کتاب "بک ہوم" نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں) ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

Related Articles

Back to top button
Doctors Team
Last active less than 5 minutes ago
Vasily
Vasily
Eugene
Eugene
Julia
Julia
Send us a message. We will reply as soon as we can!
Mehwish Hiyat Pakistani Doctor
Mehwish Sabir Pakistani Doctor
Ali Hamza Pakistani Doctor
Maryam Pakistani Doctor
Doctors Team
Online
Mehwish Hiyat Pakistani Doctor
Dr. Mehwish Hiyat
Online
Today
08:45

اپنا پورا سوال انٹر کر کے سبمٹ کریں۔ دستیاب ڈاکٹر آپ کو 1-2 منٹ میں جواب دے گا۔

Bot

We use provided personal data for support purposes only

chat with a doctor
Type a message here...