صبح کے دھندلے میں، کھیتوں میں جاتے کسانوں کے بیلوں کے گلے میں پڑے گھنگھروؤں کی مدھ بھری آواز

مصنف: ع غ جانباز

قسط: 3

میری پیدائش اور اہل خانہ

صبح کے دُھندلکے میں، کھیتوں میں جاتے کسانوں کے بیلوں کے گلے میں پڑے گھنگھروؤں کی مدھ بھری آواز، صبح صادق کے آنے کی نوید، راستوں کی دُھول نمی کے بوجھ تلے دبی، اُٹھنے سے قاصر، باہر گندم کے نوخیز پودوں کی کونپلوں کے سروں پر شبنم کے موتی، جیسے انہی نایاب موتیوں کے حصول کی خاطر یہ ساری آبیاری کی گئی ہو۔ گاؤں کے کنارے پڑے گوبر کے انبار اور پتّوں، چھلکوں پر پڑی برف کی ہلکی سفید لکیریں اپنے دامن میں سمیٹے، راہ گیروں کی توجہ کا مرکز بننے پر نازاں …… لبّھے تیلی کے گھر کے پچھواڑے ڈربے میں دُبکے مرغ کی کُکڑوں کُوں …… مسجد کے میناروں کے جھروکوں میں بسیرا ڈالے کبوتروں کی غٹر غوں …… کرم دین کے گھر کے پیچھے بریسم کے کھیت میں جامن کے درخت پر بیٹھی فاختاؤں کی ہاؤ ہُوں۔

اِس رنگا رنگی میں جاڑوں کی ایک سرمئی صبح، پہلی نومبر 1930ء کو ایک گاؤں ”بڑوہ“ نزد تحصیل نواں شہر مشرقی پنجاب (متحدہ ہندوستان) میں چودھری ہاشم علی کے ہاں ایک نومولود کی آمد…… اور بات پَو پھٹنے سے کچھ آگے بڑھی تو کسی روشنی کے گولے کے مشرق سے طلوع ہونے پر اختتام پذیر ہوئی۔ جُوں جُوں اِس گولے کی حدت بڑھتی گئی، نومولود شگوفہ بھی کھلتا گیا۔ اس کی آمد اور اس کی خوشبو مائی ”دائی فاطاں“ کے طفیل گھر کے آنگن سے نکل کر گاؤں کے کونے کونے تک جا پہنچی۔ حرکات و سکنات نیم خوابیدگی سے باہر لے آئیں۔ گُھٹّی دینے کا عمل ”دادی جان“ نے ادا کردیا۔

مسجد سے مولوی صاحب کو بلایا گیا۔ مسجد کے امام ایک نابینا حافظ تھے۔ ایک لڑکا ہاتھ پکڑکر لے آیا۔ چارپائی کے نزدیک ”پیڑھی“ پر بٹھا دیا گیا۔ اُنھوں نے کانوں میں اذان دی اور نومولود کی صحت و تندرستی اور بھلی زندگی کے لیے دعا کی۔ گھر والوں نے امام صاحب سے کھانا کھانے کی درخواست کی جو قبول ہوئی۔ حافظ صاحب نے کھانا کھا کر پھر دُعا کی اور اُسی لڑکے کے ساتھ رُخصت ہوئے۔

یہ خبر نومولود کے ننھیال میں پہنچی تو خوشیوں کا ایک لاوا پھوٹ نکلا اور سب کو اپنے ساتھ بہاکر لے گیا۔ مَصلحتوں اور تنگیٔ داماں کی سیاہی اور شوقِ وصال کھینچ لایا سوئے ملاپِ دلداری…… نام ”عبد الغفور“ تجویز ہوا، جسے سب نے قبولیت کی سَند بخشی۔ سردی کا موسم اور نازک سا نومولود۔ والدہ نے پہلے ہی نرم اور گرم کپڑے بنا رکھّے تھے۔ دادی جان نے لکڑی کے کوئلے تیاّر کیے ہوئے تھے۔ جو مٹی کی انگیٹھی میں جلا کر نومولود کی چارپائی کے نیچے رکھ دی گئی تاکہ کمرہ گرم رہے۔

میری پیدائش پر گھر میں موجود اہل خانہ کی تفصیل

والد صاحب (چودھری ہاشم علی)، تعلیم ”مڈل نارمل“ جو اس زمانے میں ایک پرائمری ٹیچر کے لیے موزوں تعلیمی استعداد تھی، دو سال ایک سکول میں اُستاد رہے اور ساتھ حکمت پڑھنے کا شوق۔ لمبا قد، خوش پوش، سفید تہبند، سفید کرتا اور سفید کُلّے پر باندھی کلف لگی سفید پگڑی۔ ایک شانِ دلربائی کے ساتھ چلتے، ہر کس و ناکس سے علیک سلیک۔ حکمت کی ابتدائی تعلیم کے ساتھ مریضوں کی مُفت ابتدائی طبّی امداد شروع کردی۔ طب کی تعلیم کے ساتھ دماغ تحقیق کی جانب مائل، کچھ نئی ایجادات کے متمنّی۔

(جاری ہے)

نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں) ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

Related Articles

Back to top button
Doctors Team
Last active less than 5 minutes ago
Vasily
Vasily
Eugene
Eugene
Julia
Julia
Send us a message. We will reply as soon as we can!
Mehwish Hiyat Pakistani Doctor
Mehwish Sabir Pakistani Doctor
Ali Hamza Pakistani Doctor
Maryam Pakistani Doctor
Doctors Team
Online
Mehwish Hiyat Pakistani Doctor
Dr. Mehwish Hiyat
Online
Today
08:45

اپنا پورا سوال انٹر کر کے سبمٹ کریں۔ دستیاب ڈاکٹر آپ کو 1-2 منٹ میں جواب دے گا۔

Bot

We use provided personal data for support purposes only

chat with a doctor
Type a message here...