سکول کے سامنے کُشادہ گراؤنڈ تھا، پرائمری کلاسوں میں میری تعلیمی حالت کیا تھی، ذہن سے محو ہو چکی بس اِتنا یاد ہے کبھی فیل ہونے کی نوبت نہیں آئی۔
گاؤں کی پہلی جھلک
مصنف: ع غ جانباز
قسط: 5
ایک دوسری دکان پَرچون کی تھی جو ایک ہندو کمہار کی تھی۔ کمہار مٹی کے کچے برتن بھی بناتے اور پکاتے۔ کچھ گاؤں کے مغربی حصّہ میں بھی ایسی ہی چند دکانیں تھیں۔ دو مسجدیں تھیں ایک مشرقی حصّہ میں اور دوسری مغرب میں۔ ایک پرائمری سکول تھا جو اُن دنوں چوتھی جماعت تک تھا۔ آبادی کی اکثریت ارائیں برادری سے تعلّق رکھتی تھی۔ شمالی حصّہ میں کچھ "گھوڑے واہ" راجپوت بھی آباد تھے، جو زمین کی ملکیت کے حساب سے زیادہ رقبہ کے مالک تھے۔ راجپوت برادری کا رہائشی علاقہ دُوسرے گاؤں سے کافی اُونچے ایک ٹیلے پر واقع تھا۔ اُس پر جانے کے لیے ایک پینتالیس ڈگری پر بنی سڑک اُوپر جاتی تھی، جو پختہ اینٹوں کی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: اگر سندھ حکومت انفراسٹرکچر سیس کے پیسے کراچی کے انفرا اسٹرکچر پر لگا دے تو تمام مسائل حل ہو جائیں، خرم اعجاز
مزار اور تعلیم
گاؤں کے باہر آدھا کلو میٹر پر واقع شمال کی جانب ایک مزار تھا جو راجپوت برادری کے کسی بزرگ کا تھا۔ اس خاندان کے دو لڑکے محمد شفیع اور محمد اسلم ہمارے ساتھ پڑھتے تھے۔ محمد شفیع نویں میں اور محمد اسلم ایک جماعت آگے۔ گاؤں میں چند ہی لوگ پڑھے لکھے تھے جو مڈل تک تعلیم یافتہ تھے۔ نئی پود میں سے ایک دو نے میٹرک بھی کر لیا تھا۔ سارے گاؤں کی گلیاں کچّی تھیں اور پانی کی نکاسی کے لیے باقاعدہ نالیاں نہیں تھیں۔
یہ بھی پڑھیں: محمد رضوان نے سینٹرل کنٹریکٹ پر دستخط کرنے سے انکار کرتے ہوئے پی سی بی کے سامنے مطالبات رکھ دیے
خاندان میں خوشیاں
میری پیدائش کے دو سال بعد ایک بار پھر اللہ تعالیٰ نے میرے چھوٹے بھائی عبد الرشید کی ولادت کی صورت میں خوشیاں جلوہ گر فرمائیں۔ اِسی طرح فیملی بنتی گئی۔ بھائی کی پیدائش کے چار سال بعد ایک بہن نذیر بیگم اور اس کے تقریباً چار سال بعد دوسری بہن کلثوم اختر کی پیدائش کے مُژدے سنے گئے۔
یہ بھی پڑھیں: ڈکی بھائی جواء ایپ کیس؛ عدالت نے فریقین سے جواب طلب کرلیا
سکول کی یادیں
آٹھ سال کی عمر میں مجھے گاؤں کے پرائمری سکول میں داخل کروا دیا گیا۔ سکول میں میرے اُستاد ماسٹر غلام محمد برادری میں سے رشتہ دار تھے۔ وہ اپنے ہمراہ اپنی لڑکی جو میری ہم عمر تھی لائے تھے اور وہ ہمارے ساتھ کلاس میں پڑھتی تھی۔ یاد رہے اُن دنوں لڑکیوں کو سکول میں پڑھانے کا رواج بالکل نہیں تھا۔ ماسٹر غلام محمد ایک بڑی ہی باوقار شخصیت کے حامل انسان تھے۔ لمبا قد، بارُعب چہرہ، سر پر پگڑی باندھتے تھے۔ ہاتھ میں ہر وقت چھڑی رکھتے۔ قدرے سخت طبیعت تھے اور اُس زمانے کے ماحول کے مطابق سکول میں غلطیوں پر چھڑی سے سزا دیتے تھے۔
سکول کا ماحول
سکول کے ساتھ ایک لمبا چوڑا جوہڑ تھا، جہاں گاؤں کی بھینسیں اور دوسرے جانور پانی پیتے تھے اور اکثر جوہڑ میں تیراکی کے مظاہرے کرتے تھے۔ سکول میں ایک کنواں بھی تھا، جہاں سے "ڈول" کے ذریعے سے پانی پینے کے لیے اور نہانے کے لیے نکالا جاتا تھا۔ سکول چار کمروں پر مُشتمل تھا۔ آگے برآمدہ تھا۔ سکول کے جنوبی حصّہ میں برگد کے دو بڑے درخت تھے۔ پیتل کی بنی گول گھنٹی پر چند چوٹیں لگنے سے سکول کا آغاز ہوتا تھا۔ سکول کے سامنے ایک کُشادہ گراؤنڈ تھا جہاں کھیلیں ہوتی تھیں۔ پرائمری کلاسوں میں میری تعلیمی حالت کیا تھی، اب ذہن سے محو ہو چکی ہے۔ بس اِتنا یاد ہے کہ کبھی فیل ہونے کی نوبت نہیں آئی۔
(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب "بک ہوم" نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں) ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔








