کسی ناجائز کام کسی کو کبھی نہیں کہوں گا اور نہ ہی آپ سے کسی ناجائز بات کی توقع رکھوں گا، میرے دفتر سے آیا ٹیلی فون نہ سننا یا کال بیک نہ کرنا ناقابل معافی ہے۔
مصنف: شہزاد احمد حمید
قسط: 386
سفارش کا معاملہ
تیسرا؛میں اپنے دفتری معاملات میں کسی قسم کی سفارش برادشت نہیں کرتا۔ میرے لئے سب سے بڑی سفارش آپ خود ہیں یا آپ کا افسر۔ میں کوئی ناجائز کام کسی کو کبھی نہیں کہوں گا اور نہ ہی آپ سے کسی ناجائز بات کی توقع کروں گا۔ میرے دفتر سے آیا ٹیلی فون نہ سننا یا کال بیک نہ کرنا ناقابل معافی ہے۔
دیوانے کا خواب
”آپ لوگوں کو میں ایک ماہ کا وقت دے رہاہوں اپنے معاملات درست کر لیں۔ جو پہلے ہو چکا اسے بھول کر آگے بڑھیں لیکن آئندہ غلطی کی گنجائش نہیں۔ مجھے ایک ماہ کے بعد کوئی شکایت ملی تو معافی نہیں ہو گی۔ جرم کے مطابق سزا ملے گی۔ یاد رکھیں میں سفارش نہیں مانتا۔ اس کے بعد میں اچانک یونین کونسل کا دورہ کروں گا اور جس نے میری باتوں پر عمل نہیں کیا ہو گا یا ریکارڈ وغیرہ درست نہیں ہو گا تو میرا غصہ اس کے لئے بہت شدید ہو گا۔“
اجلاس کے بعد
اس اجلاس کے بعد میں ان میں گھل مل جاتا اور چائے پیتا۔ مجھے یقین ہے جو کام پیار سے کیا جا سکتا ہے وہ ڈنڈے سے کبھی نہیں ہوتا۔ ڈویثرن بھر کی ساری تحصلیوں کے دورے مکمل ہو چکے تھے اور میرا پیغام ہر متعلقہ اہل کار تک واضح انداز میں پہنچ چکا تھا۔ میرے فیڈ بیک کے مطابق، ”ماتحت عملہ میری باتوں کو غور سے تو سنتا مگر اسے دیوانے کا خواب سمجھ کر دوسرے کان سے نکا ل دیتا تھا۔ ان کا خیال تھا کہ یہ سب پیسے لینے اور ریٹ بڑھانے کے جتن تھے۔“
محکمہ کی کارکردگی
مجھے ایک ماہ لگ گیا اپنی بات تمام عمال تک پہنچانے میں۔ اب اسی بنیاد پر محکمہ کی کارکردگی بہتر بنانی تھی۔ دفتر کی بحالی کا معاملہ پہلے ہی حل ہو چکا تھا۔ اب مجھے اپنے دفتر کی افادیت کمشنر، ڈی جی لوکل گورنمنٹ اور سیکرٹری بلدیات پنجاب کو ثابت کرنی تھی۔ جس کے لئے مجھے تمام فیلڈ فور میشنز کا اعتماد، تعاون اور کارکردگی درکار تھی۔ کسی دفتر یا organisation کی کارکردگی ٹیم ورک کا نتیجہ ہوتی ہے اکیلا شخص اکیلا ہی ہوتا ہے کچھ نہیں کر سکتاہاں اس کا کردار، مخلص ہونا اور اپنے ساتھیوں اور ماتحتوں پر اعتماد اور بھروسہ بڑا معنی رکھتا ہے۔ میں ٹیم ورک کا قائل ہوں اور شاید اچھا ٹیم لیڈر بھی۔ مشکل حالات میں میں خود آگے رہنا پسند کرتا تھا اور یہی کامیابی کی طرف بڑا قدم ہوتا تھا۔
سکون کی حالت
ابا جی کہا کرتے تھے؛ ”بیٹا کام وہی لے سکتا ہے جو کام جانتا ہو۔“ دفتر کی دیگر مصروفیات میں ایک ماہ کا پتہ ہی نہ چلا۔ اس دوران کمشنر آفس میری باتوں کو توجہ سے سننے لگا تھا۔ میرے دفتر کا کچھ اعتماد بحال ہوا تو میں بھی خود کو ریلیکس محسوس کرنے لگا۔ میری توجہ اب انجینئرنگ برانچ کی طرف تھی۔ عامر نسیم بہت قابل اور اچھا افسر تھا۔ پڑھا لکھا، اد بی شخص۔ کمشنر اس کی گفتگو سے بہت متاثر تھے اور اسے ”فلاسفر انجینئر“ کہہ کر پکارتے تھے۔ “برٹن رسل” جیسا فلاسفر اور فیض احمد فیض جیسا شاعر اسے ازبر تھے اور یہ کسی عام آدمی کے بس کی بات نہ تھی۔
آخری سوچیں
ابھی یونین کونسل کی سطح پر شکایات کا خاطر خواہ ازا لہ نہ ہوا تھا اور میں ایک ماہ کی مدت ختم ہونے کا انتظار کر رہا تھا۔ جب نیت صاف ہو تو اللہ بھی مدد کرتا ہے بلکہ میرا تو ایمان ہے کہ اللہ کی مدد کا تعلق ہوتا ہی آپ کی نیت پر ہے۔
(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں) ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔








