سیاسی قوت کے طور پر مضبوط ہونا دفاعی قوتوں کا نہیں عوام اور سیاست دانوں کا حق ہے، مولانا فضل الرحمان
مولانا فضل الرحمان کی گفتگو
کراچی(ڈیلی پاکستان آن لائن)جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ ہم دفاعی قوت کو دفاعی لحاظ سے مضبوط دیکھنا چاہتے ہیں سیاسی قوت کے طور پر نہیں، سیاسی قوت کے طور پر مضبوط ہونا دفاعی قوتوں کا نہیں عوام اور سیاست دانوں کا حق ہے، فلسطین فوج ہرگز نہ بھیجی جائے۔یہ بات انہوں نے کراچی میں گورنر سندھ کامران خان ٹیسوری کے ہمراہ صحافیوں سے گفت گو کرتے ہوئے کہی۔ گورنر سندھ نے فضل الرحمان کو اعزازی ڈگری سے نوازا۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان نے بھارتی سفارتکار کو ناپسندیدہ شخصیت قرار دے کر ملک چھوڑنے کی ہدایت کر دی
روایات کی حفاظت
مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ اپنی روایات بچانے کے لیے ہم جدوجہد کررہے ہیں، ایک دوسرے کو عزت دینا ہماری روایات ہیں، اعزازی ڈگری کا شکریہ مگر میں خود کو مولانا کہلوانا پسند کروں گا۔ ان کا کہنا تھا کہ افغانستان کے معاملے کر آج کے تناظر میں نہیں دیکھا جائے کہ وہاں سے کچھ لوگ آئے اور کارروائی کرکے چلے گئے، ہمیں 78 سال کی افغان پالیسی پر بات کرنی چاہیے، افغانستان کبھی بھی پاکستان دوست نہیں رہا کہیں ہی ہماری افغان پالیسی کا فیلیئر تو نہیں؟ ظاہر شاہ سے اشرف غنی تک ہمیں کوئی افغان دوست حکومت نہیں ملی، کیا وجہ ہے؟ ہم اپنا بیانیہ تیار کریں گے تو الزام ان پر ہی دیں گے مگر ہمیں اپنے گریبان میں بھی جھانکنا چاہیے کہ یہ ہماری افغان پالیسی کا فیلیئر تو نہیں؟ اس پر بھی بحث کرنی چاہیے۔
یہ بھی پڑھیں: عالمی اور مقامی مارکیٹوں میں سونے کی قیمت میں کمی، فی تولہ کتنے کا ہو گیا؟
آئینی مسائل
مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ آئین پاکستان کہتا ہے کہ آئین سازی قرآن و سنت سے ہٹ کر نہیں ہوگی مگر ہم نے حالیہ ترامیم میں کئی قانون پاس کیے ہیں چاہے وہ 18 سال سے کم عمری کی شادی کا بل ہو، گھریلو تشدد کا بل ہو یا ٹرانس جینڈر ایکٹ ہو، ہم نے قرآن و سنت کو پس پشت ڈال کر صرف اقوام متحدہ کے کہنے پر قانون سازی کی، اس معاملے پر بات کی جائے ہم بات چیت کرنے کو تیار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جب آپ یک طرفہ طور پر کسی ادارے کے خلاف ایسا رویہ اختیار کریں کہ اسے اپنے تحفظ کی فکر ہوجائے تو دینی ادارے بھی ایک ادارہ ہیں، دینا کی رینکنگ میں جائیں تو عدلیہ، تجارت سمیت ہر شعبے میں آپ پیچھے ہیں اور اگر ٹاپ رینکنگ میں ہیں تو صرف دینی علوم کے حوالے سے ہیں اس کی قدر کی جائے۔
یہ بھی پڑھیں: طیارے نے یوٹرن لیا، پھر ریڈار سے غائب: بشار الاسد دمشق چھوڑ کر کہاں گئے؟
دفاعی پوزیشن اور سیاسی قوت
ان کا کہنا تھا کہ دفاعی حوالے سے پاکستان کی پوزیشن بہتر ہوئی ہے اور ہمیں اسے برقرار رکھنا چاہیے ہم پاکستان کے طاقت ور دفاع کا خیرمقدم کرتے ہیں لیکن دفاعی قوت کو دفاعی لحاظ سے مضبوط دیکھنا چاہتے ہیں سیاسی قوت کے طور پر نہیں کیوں کہ سیاسی قوت کے طور پر مضبوط ہونا دفاعی قوتوں کا نہیں عوام اور سیاست دانوں کا حق ہے، ہمیں سیاسی اداروں کو مضبوط کرنا چاہیے اگر تمام ادارے مضبوط ہوں گے تو ملک آگے بڑھے گا ہمیں ایک دوسرے کی بالادستی کے بجائے آئین کی بالادستی کے لیے کام کرنا چاہیے۔
یہ بھی پڑھیں: بھارت کے کسی بھی حملے کا بھر پور جواب دیں گے، ابھیندن یاد ہوگا، وزیر دفاع
غزہ میں فوج بھیجنے کے حوالے سے
غزہ میں فوج بھیجنے کے سوال پر انہوں نے کہا کہ پاکستان کسی طور پر بھی غزہ میں فوجیں نہ بھیجے اور کسی بھی امن فورس کا حصہ نہ بنے، ہمیں ایک تلخ تجربہ ہے، ماضی میں اُس وقت کے بریگیڈیئر ضیا الحق اردن گئے تھے اور فلسطینیوں کے خلاف کارروائی کی تھی، فلسطینی وہ وقت بھولے نہیں، ایک دور میں یہ بھی ایشو اٹھا تھا کہ عراق فوج بھیجی جائے یا نہیں، یہ افواج پیس کیپنگ نہیں ہوتیں یہ جنگ کیپنگ ہوتی ہیں ان کا کام لڑنا ہوتا ہے پاکستان کسی صورت یہ غلطی نہ کرے۔
افغان مہاجرین کے مسائل
افغان مہاجرین کے سوال پر انہوں نے کہا کہ ہمیں شکایات افغان حکومت سے ہیں اور ہم زور ڈال رہے ہیں ان لوگوں پر جو چالیس سال سے ہمارے مہمان ہیں، مہاجرین کو مہمان کے طور پر ڈیل کیا جائے، مہاجرین جب بھی کہیں جاتے ہیں مسئلہ بنتا ہے یہ پاک افغان دوطرفہ مسئلہ ہے دیکھنا پڑے گا یہ چالیس برسوں میں افغانیوں نے پاکستان کی معیشت میں کتنا حصہ ڈالا؟ افغانی اگر بینکوں سے اپنا پیسہ نکال لیں تو کئی بینک دیوالیہ ہوجائیں، پالیسی بنائے جائے افغانیوں کی صلاحیتیں پاکستان کے لیے استعمال ہوں۔ ان کا کہنا تھا کہ 2018ء اور 2024ء دونوں انتخابات عوامی نہیں اسٹیبلشمنٹ کے تھے۔








