واہگہ پہنچنے کے لیے صرف 35 منٹ کا وقت تھا، راج چرن سنگھ نے ہمیں آدھ گھنٹے میں اٹاری اتار دیا، 5 منٹ باقی تھے بھاگتے ہوئے کسٹم والوں کے پاس پہنچے۔
مصنف: رانا امیر احمد خاں
قسط: 255
امرتسر دی بار نوں راجا دھنے باد
امرتسر بار ایسوسی ایشن کے عہدیداروں نے کار پارکنگ تک آ کر ہمیں گرم جوشی سے رخصت کیا۔ یہ ہمارے بھارتی دورے کی آخری باضابطہ رخصتی تھی۔ اب واہگہ بارڈر پہنچنا تھا راقم نے باآواز بلند دوستوں کو بتایا کہ ساڑھے تین بج چکے ہیں جبکہ واہگہ بارڈر 5 بجے بند ہو جاتا ہے۔ اگر ہم بروقت وہاں نہ پہنچ پائے تو پاکستان میں داخل نہیں ہو سکیں گے۔
ایمرجنسی صورتحال
اس ایمرجنسی اعلان کے ساتھ ہی ہم لوگ اپنی گاڑیوں میں داخل ہوئے۔ ابھی کچھ دوستوں نے کسی دکان سے کاجو والی برفی اور خواتین ارکان نے امرتسری چوڑیاں بھی خریدنا تھیں۔ جس کے بعد ہمارے پاس واہگہ پہنچنے کے لیے صرف 35 منٹ کا وقت تھا۔ راج چرن سنگھ نے یہ چیلنج قبول کر لیا اور اس تیزی سے گاڑی کو اڑایا اور کمال یہ کر دکھایا کہ ہمیں آدھ گھنٹے میں اٹاری اتار دیا۔
واہگہ بارڈر پر پہنچنا
ابھی 5 منٹ باقی تھے ہم لوگ بھاگتے ہوئے کسٹم والوں کے پاس پہنچے۔ وفد کے سربراہ کی حیثیت سے راقم نے تمام پاسپورٹ بھارتی عملے کے حوالے کر دئیے۔ چند ہی منٹ میں یہ کاغذات کلیئر ہو گئے اور ہم لوگ قلیوں سے سامان اٹھوا کر تیزی سے واہگہ کی جانب روانہ ہوئے۔
وطن کی سرزمین پر قدم
واہگہ بارڈر کے گیٹ سے نکل کر وطن عزیز کی سرزمین پر قدم رکھا تو عجب فرحت اور اپنائیت محسوس ہوئی، وفد کے ارکان کے بیٹے، بیگمات اور ڈرائیور ہمیں لینے کے لیے گیٹ کے ساتھ ہی انتظار میں کھڑے تھے۔ اپنے خاندانوں کو دیکھ کر ہمیں اچانک اپنے "مسافر خاندان" کی گمشدہ رکن نور جہان جعفر یاد آ گئیں۔
نور جہان جعفر کا ذکر
امرتسر یاترہ کے دوران اور واہگہ بارڈر تک واپس آ کر بھی چشم ہائے منتظر اپنی اس خفا ہو کر جانے والی نور جہاں جعفر، آگرے میں ہم سے قطع تعلق کرنے کے بعد رسم دنیا نبھانے اور زمانے کو دکھانے کے بغیر تن تنہا ہم سے کچھ دیر پہلے ہی واہگہ بارڈر کراس کر کے پاکستان پہنچ گئی تھیں۔ یہ بات ہمیں گاڑی میں بیٹھنے سے پہلے راجاصاحب کی بیگم صاحبہ نے بتائی تھی۔ اصل میں غلطی ہماری تھی۔ نور جہاں جعفر کو اسلام آباد سے ہم نے اپنے وفد کا رکن لاہور میں ہماری ایک خاتون وکیل کی سفارش پر بغیر جانے بْوجھے بنا لیا تھا۔
بیرونِ ملک سیر و سیاحت
1987ء میں میرا سرکاری طور پر تھائی لینڈ جانا ہوا تھا۔ 2013ء میں سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن وفد کے ساتھ ترکی اور 2018ء میں پورپی ممالک اٹلی، فرانس اور سوئٹزرلینڈ جانے کا موقع ملا۔ قبل ازیں 2017ء میں اپنے دیرینہ دوست جاوید مشرف، پروفیسر ڈاکٹر فرزند علی اور اپنے بیٹے عثمان کے دوست محمد علی، ان کے والد اور دیگر فیملی ممبران سے ملاقات کے لیے 20 روزہ سیاحت پر لندن اور مانچسٹر وغیرہ جانے کا اتفاق ہوا۔ مذکورہ بالا دوستوں کی محبت، گرم جوشی اور تعاون مجھے ہمیشہ یاد رہے گا.
(جاری ہے)
نوٹ
یہ کتاب "بک ہوم" نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں) ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔








