وہ سر جھکائے منہ لٹکائے چلے گئے، شکوہ کیا کہ آپ کی وجہ سے شرمندگی اٹھانا پڑی، انگور کھٹے تھے، حماقت تھی مگر سچی، سیکر ٹیریٹ بہترین تربیت گاہ ہے۔
مصنف کی معلومات
مصنف: شہزاد احمد حمید
قسط: 393
یہ بھی پڑھیں: قطر سے ایل این جی کا معاہدہ، 177 کارگو شپ کی ضرورت نہیں لیکن اگر نہیں خریدتے تو بھی 5 ارب ڈالر دینے ہوں گے: روف کلاسرا
بہاول پور کے افسران
چند ماہ کا عرصہ گزرا تو محکمہ جاتی کاموں میں کافی بہتری آنے لگی۔ کچھ افسران سے شناسائی بھی بہتر ہو گئی۔ ملک محمد رمضان سے تو اچھی دوستی ہو گئی۔ وہ خوب گپ شپ لگاتے، لطیفے سناتے اور مقامی حالات سے آگاہ بھی کرتے۔ ان کی محفل کشت و زعفران بکھیر جاتی۔ وہ عرصہ سے یہاں تعینات تھے۔ مادری زبان سرائیکی تھی جو ان کی زبان سے اچھی لگتی۔ شہزاد سعید بھی اچھے اور سلجھے ہوئے انسان تھے۔
یہ بھی پڑھیں: جونیجو دور میں بے گھر مستحقین کے لیے کوارٹرز کی تعمیر کا پراجیکٹ شروع ہوا، فی کوارٹر 26200 روپے کی رقم مختص تھی، یہ پراجیکٹ میرے محکمہ کے پلے پڑ گیا
کمشنر کی نومٹنگ اور اس کے نتائج
ان کے دفتر کا الائچی دار قہوہ خوشبو دار ہوتا تھا لیکن کمشنر ان کی نوٹنگ ڈرافٹنگ سے خوش نہ تھے اور اکثر سعید کو ان کی ناراضگی کا سامنا رہتا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ انہوں نے شاید سیکرٹریٹ میں کبھی کوئی ذمہ داری نہ نبھائی تھی۔ سیکرٹریٹ کی نوکری اچھا نوٹ لکھنے کی بہترین تربیت گاہ ہے۔ میں نے بھی ہیڈ کواٹرز تعیناتی کے دوران اپنے استاد زوالفقار حیدر (جو میرا بیج میٹ بھی تھا) سے نوٹ لکھنا سیکھا۔ محمد اشرف ڈائریکٹر ڈویلپمنٹ تھے۔ شریف مگر منفی سوچ کے مالک۔ مثبت بات میں بھی کوئی منفی نقطہ ڈھونڈنے کی کوشش کرتے تھے۔ دفتر سے باہر کم ہی جاتے تھے حالانکہ ان کی فیلڈ پوسٹنگ تھی۔
یہ بھی پڑھیں: اسٹیٹ بینک نے مانیٹری پالیسی کا اعلان کردیا
ایک تجربہ
میرے ایکسین عامر سے تو ان کی گاڑھی چھنتی تھی۔ وہ شکایت لگانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دیتے تھے۔ ایک روز میں ایک فائل ڈسکس کرنے کمشنر کے پاس گیا وہ بھی تشریف رکھتے تھے۔ مجھے دیکھتے ہی کمشنر سے کہنے لگے؛ "سر! ان کے محکمے کا بھی کوئی حال نہیں۔ پراگرس کم ہے۔" ان کی بد قسمتی میں اس روز جاری ترقیاتی منصوبوں کی معائنہ رپورٹ ہی کمشنر کے ساتھ ڈسکس کرنے گیا تھا۔ میں نے رپورٹ کو موقع کی تصاویر کے ساتھ واضح کیا تھا جبکہ ڈائریکٹر ڈویلپمنٹ کی زبانی بات اور موقع کی حقیقت میں بڑا فرق تھا۔
یہ بھی پڑھیں: کیا مسلمانوں اور مسلم ممالک کو واقعی ڈونلڈ ٹرمپ پسند ہیں؟
افسران کی عزت کا راز
کمشنر نے رپورٹ کا سرسری سا جائزہ لیا اور بولے؛ "اشرف! آپ اپنے کام پر توجہ کریں۔ یہ شکایات والی باتیں بند کریں۔ فیلڈ میں نکلا کریں۔ منصوبے خود چیک کریں۔ سنی سنائی باتیں مجھ تک مت پہنچایا کرو۔ آپ کی باتوں اور اس رپورٹ میں بڑا فرق ہے۔ آپ جا سکتے ہیں۔" وہ سر جھکائے اور منہ لٹکائے چلے گئے۔ بعد میں مجھ سے شکوہ کیا کہ آپ کی وجہ سے مجھے شرمندگی اٹھانی پڑی۔
یہ بھی پڑھیں: جنوبی افریقا میں 5.3 شدت کا زلزلہ
نوکری میں اصول
نوکری میں تین کام؛ میں نے نوکری میں تین کام یا باتیں کبھی نہیں کی تھیں۔ پہلی؛ اپنے افسر سے کبھی جھوٹ نہیں بولا تھا۔ دوسری؛ اپنا کام ہمیشہ وقت پر اپنی صلاحیت کے مطابق ختم کیا اور ایمرجنسی کے لئے اہم معلومات پہلے سے ہی اکٹھی کرکے رکھتا تھا۔ تیسرا؛ میٹنگ میں کبھی تاخیر سے نہیں پہنچا تھا۔ اسی وجہ سے افسران میری عزت کرتے اور میرے کام کو ہر سطح پر پذیرائی ملتی تھی۔ میں یہ سب کسی تھپکی یا شاباش کے لئے نہیں کرتا تھا بلکہ یہ عادت میری جینز میں تھی۔
یہ بھی پڑھیں: انڈیا میں وائرل فیشن شو: کچی آبادی کے نوجوان ماڈلز سلیبریٹی بن گئے
ضمیر کی تسلی
مجھے فخر ہے کہ اللہ کی کرم نوازی سے میں نے پوری ملازمت کے دوران اپنے ضمیر کی نظر میں سرخرو رہا۔ مجھے امید ہے اللہ کے ہاں جب جواب دہی ہو گی تو مجھے اس حوالے سے کوئی پیشمانی یا پریشانی نہیں ہوگی ان شاء اللہ۔ میرا ماننا ہے کہ کوئی بھی افسر ماتحت کی صرف کام کی وجہ سے ہی عزت کرتا ہے۔
نوٹ
نوٹ: یہ کتاب "بک ہوم" نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں) ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔








