پاکستان میں سوویت یونین کے ٹوٹنے کی کہانی: خاموشی کا دور ختم ہوگا

مصنف: جسٹس (ر) بشیر اے مجاہد
قسط: 47
یہ ایک بہت بڑا موضوع ہے۔ دُنیا بھر کی یونیورسٹیوں میں اس پر ریسرچ اور تحقیق ہو رہی ہے کہ سوویت یونین کے ٹوٹ جانے سے دُنیا کی سیاست اور براعظموں کی سیاست میں کیا کیا تبدیلیاں آئی ہیں اور یہ سب کس طرح اور کیوں کر ممکن ہوا۔ اس کی جستہ جستہ کہانیاں تو ہم پڑھتے رہے ہیں مگر یہ سب کچھ اس اصل کہانی کا بہت کم تر حصہ ہے جو ابھی ہمارے سامنے نہیں آیا۔ پاکستان میں بہت سے لوگوں نے اس سب سے بڑی کہانی کا اہم ترین حصہ جانا ہے مگر وہ خاموش ہیں۔ دیکھئے تاریخ اپنے بل خود ہی کھولے گی۔ یہ سب اس طرح خاموش نہیں رہ سکتا۔
محمد خاں جونیجو کی حکومت
ہم بات کر رہے تھے محمد خاں جونیجو کی حکومت کی۔ اُنہوں نے مسلم لیگ بنا کر ایوان جو کہ غیر جماعتی تھا کو جماعتی بنا دیا۔ اور اب وہ کچھ من مانی بھی کرنے لگے تھے۔ انہیں جلدی تھی کہ مارشل لاء کو جلد ختم کیا جائے مگر جنرل ضیاء الحق مارشل لاء کو اپنی لائف لائن خیال کرتے تھے۔ انہوں نے آئین میں آٹھویں ترمیم تیار کی جو کہ پورے آئین میں کی جانے والی ایک بہت بڑی ترمیم تھی۔ اس نے 1973ء کے آئین کا حلیہ بدل دیا۔ جونیجو اس ترمیم کو ضیاء الحق کی مرضی کے مطابق منظور نہ کرا سکے۔ اس میں بہت سی ترامیم کی گئیں، جس کے لئے جنرل ضیاء الحق خوش نہ تھے۔
اوجڑی کیمپ کا سانحہ
اپریل 1988ء میں اوجڑی کیمپ کا حادثہ ہوا جس میں ایک سو سے زیادہ افراد جاں بحق ہو گئے۔ اوجڑی کیمپ اسلحہ خانہ تھا جہاں امریکی اسلحہ رکھا جاتا اور یہ اسلحہ افغان مجاہدین کے استعمال کے لئے ہوتا تھا جسے پاکستان بھی استعمال کرتا رہا۔ اوجڑی کیمپ کا سانحہ افسوسناک تھا اور اس کے نتائج میں پہلا ردعمل یہ ہوا کہ مئی 1988ء میں محمد خان جونیجو کو عین اس وقت برخاست کر دیا گیا جب وہ غیر ملکی دورہ سے واپس اسلام آباد اُترے تھے۔
جنرل ضیاء الحق کی مخالفت
ایک وجہ یہ تھی کہ امریکہ افغانستان میں مجاہدین کی حکومت کے خلاف تھا مگر ضیاء الحق چاہتے تھے کہ اسلامی حکومت قائم ہو اور ان کی مرضی کے خلاف جونیجو نے جینوا معاہدہ قبول کر لیا تھا۔ جنرل ضیاء الحق بہت غصے میں تھے۔ اپنے ان اقدامات کی وجہ سے وہ اپنی ہی بنائی ہوئی حکومت کو توڑ کر اُن کے لئے اجنبی ہو گئے اور ملک بھر کے سیاست دان بھی، جو جنرل ضیاء الحق کے ساتھ تھے، ان سے لڑنے کے لئے تیار ہو گئے۔
بہاولپور کا واقعہ
جنرل ضیاء الحق نے ایک نگران حکومت بنائی جس میں وزیراعظم نہیں تھا۔ کہا جاتا ہے کہ جنرل ضیاء الحق اپنے حکومتی سیٹ اپ میں بہت بنیادی تبدیلیاں کرنے والے تھے۔ پنجاب میں میاں نواز شریف نے اپنے مسلم لیگی صدر محمد خان جونیجو سے بغاوت کر کے جنرل ضیاء الحق کا ساتھ دیا۔ اسمبلیاں تحلیل ہو چکی تھیں اور ملک میں نگران حکومتیں قائم تھیں۔ 17 اگست کو جنرل ضیاء الحق کو بہاولپور کے قریب خیر پور ٹامیوالی میں امریکی ٹینکوں کا ایک مظاہرہ دیکھنے کے لئے بلایا گیا۔ جنرل ضیاء الحق 130C میں وہاں گئے۔ پاکستانی فوج کے 32 سینئر ترین حکام اور چیف آف دی آرمی سٹاف جنرل ضیاء الحق اور اُن کے معتمد خاص لیفٹیننٹ جنرل اختر عبدالرحمن جو آئی ایس آئی کے سربراہ تھے ان فوجی افسروں میں شامل تھے۔
حقیقت کی تلخی
جنرل ضیاء الحق کو شاید کسی سازش کا شبہ تھا اس لئے انہوں نے اس وقت کے امریکی سفیر اور فوجی اتاشی بریگیڈیئر جنرل رافیل کو بھی اپنے طیارہ میں بٹھا لیا۔ جنرل ضیاء الحق نے ٹینکوں کا مظاہرہ تو دیکھا…… بہاولپور ایئرپورٹ پر وہ آئے اور اپنے جہاز میں بیٹھنے سے قبل پاکستان ٹیلی ویژن نے اُن کی جو فلم دکھائی تھی اس میں صاف نظر آ رہا تھا کہ موت جنرل ضیاء الحق کے چہرے پر ناچ رہی تھی۔ جنرل ضیاء الحق نے طیارہ اڑنے سے ایک لمحہ قبل اپنے ڈپٹی چیف جنرل اسلم بیگ کو دیکھا اور انہوں نے فوراً انہیں کہا کہ وہ آئیں طیارہ میں سوار ہوں۔
طیارے کا حادثہ
جس پر جنرل اسلم بیگ نے اُنہیں بتایا کہ وہ کسی فوجی مصروفیت کے لئے ملتان جا رہے ہیں جس پر جنرل ضیاء الحق اپنے جہاز میں بیٹھ گئے اور جہاز روانہ ہونے کے چند لمحے بعد ہی بہاولپور کے قریب ہی بستی لے کمال میں گر گیا۔ اس میں آگ لگی ہوئی تھی۔ 30 ہزار لیٹر پیٹرول جو کہ طیارہ کا ایندھن تھا جل رہا تھا۔ (جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں) ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔