مجوزہ آئینی ترمیم پاس کرانے کیلئے ٹائم لائن مسئلہ نہیں، بلاول بھٹو

بلاول بھٹو کا آئینی ترمیم پر بیان
اسلام آباد (ڈیلی پاکستان آن لائن) پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ مجوزہ آئینی ترمیم پاس کرانے کیلئے ٹائم لائن کا مسئلہ نہیں، لیکن وہ سمجھتے ہیں آئینی ترمیم 25 اکتوبر تک پاس کرالی جائے گی۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان کی حمایت کرنے پر بھارت میں 3ملکوں کیخلاف ’’بائیکاٹ مہم‘‘ شروع ہو گئی
سیاسی جماعتوں کے ساتھ مذاکرات
اسلام آباد میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ ہماری طرف سے آئینی ترمیم کی کوئی ڈیڈ لائن نہیں، حکومت کیلئے ہوسکتی ہے۔ ہماری کوشش تھی مولانا سمیت تمام سیاسی جماعتوں کو ساتھ لے کر چلا جائے۔ حکومت کے پاس ضمیر پر ووٹ لینے کا آپشن موجود ہے۔ اس کے باوجود اتفاق رائے کی کوشش کی جا رہی ہے، پیپلز پارٹی تمام سیاسی جماعتوں کو ساتھ لے کرچلنا چاہتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: عمران خان کے فوکل پرسن انتظار پنجوتھا کی گمشدگی پر وزارت دفاع سے رپورٹ طلب
جے یو آئی اور آئینی اصلاحات
بلاول بھٹو نے کہا کہ جے یو آئی کا ڈرافٹ آئے گا تو بیٹھ کر دیکھیں گے، بات چیت کے بعد جو سامنے آئے گا وہ ترمیم لائیں گے۔
یہ بھی پڑھیں: برازیل میں G20 ممالک کا اجلاس، چین نے ترقی پذیر ممالک کے حق میں آواز بلند کر دی
عدلیہ اور سیاسی فیصلے
انہوں نے کہا کہ ایوان صدر میں 5 بڑے بیٹھے تھے تو یقینی طور پر سنجیدہ بات ہوئی ہوگی، عدالتوں کا چھٹی کے دن آرڈر آیا جس کا چیف جسٹس کو بھی علم نہیں تھا۔
یہ بھی پڑھیں: بھارتی میڈیا نے ڈی جی آئی ایس پی آر کی جعلی اے آئی ویڈیو چلا کر سب سے بڑی فیک نیوز دے دی
صوبائی حقوق کی جنگ
بلاول بھٹو نے کہا کہ ہم عدالتی اصلاحات اور صوبوں کے مساوی حقوق چاہتے ہیں۔ آئینی عدالتوں اور عدالتی اصلاحات پر مولانا مان گئے تھے۔ حکومت آئین کے آرٹیکل 8 اور 51 پر ترمیم لانا چاہتی تھی لیکن پیپلز پارٹی اور جے یو آئی نے انکار کر دیا۔ بانی پی ٹی آئی اور ان کی جماعت کو ہر ایشو پر موقع دیا لیکن انہوں نے غیر سنجیدگی دکھائی۔
یہ بھی پڑھیں: پنجاب بھر کے سکولوں میں پاک فوج سے اظہار یکجہتی اور یوم تشکر منایا گیا، ننھے بچوں کی امن اور اپنے ہیروز کی سلامتی کے لیے دعائیں
سیاسی مستقبل کے بارے میں خدشات
بلاول بھٹو نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی اگر اپریل 2022 سے سیاسی فیصلے کرتے تو آج وہ دوبارہ وزیراعظم ہوتے، وہ آج بھی سیاستدانوں سے نہیں اسٹیبلشمنٹ سے بات کرنا چاہتے ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ مجھے تو بانی پی ٹی آئی کا کوئی سیاسی مستقبل روشن نظر نہیں آتا، ہم نے سیاسی اتفاق رائے کیلئے کمیٹی بنائی، پی ٹی آئی نے اس کا بھی بائیکاٹ کر دیا۔
یہ بھی پڑھیں: سیمنٹ کی کم از کم ریٹیل قیمت مقرر، ایف بی آر نے کم از کم قیمت کا ایس آر او جاری کردیا
عدلیہ کی اصلاحات کی ضرورت
بلاول بھٹو نے کہا کہ جو مرضی چیف جسٹس آ جائے ہمیں فرق نہیں پڑتا لیکن افتخارچوہدری کا طرز عمل نہیں ہونا چاہیے۔ ہم چاہتے ہیں صوبوں میں بھی آئینی عدالتیں قائم ہوں، اس سے عوام کو فوری ریلیف ملے گا۔ حکومت جلدی گھبرا جاتی ہے، سیاست میں جو ڈر گیا وہ مر گیا۔
عدلیہ میں تقرریوں کی شفافیت
بلاول بھٹو نے کہا کہ اعلیٰ عدالتوں میں تقرریاں عدلیہ، پارلیمنٹ اور وکلا کی متناسب نمائندگی کے ذریعے ہونی چاہئیں۔ جسٹس منیب نے 63 اے کے فیصلے میں اپنا ذہن واضح کر دیا ہے۔ جب تک نیب ہوگا ملک میں سیاسی انجینئرنگ ہوتی رہے گی۔