دنیا کی سب سے زیادہ سست الوجود قوم مصری ہیں، یہ پہلا عرب ملک تھا جہاں دوپہر کو باقاعدہ قیلولہ کیلئے سرکاری طور پر تین چار گھنٹے کا وقفہ دیا جاتا
تحریر کا تعارف
مصنف: محمد سعید جاوید
قسط: 34
یہ بھی پڑھیں: بابر اعظم کیخلاف بولنے والے مخالفین پر محمد عامر پھٹ پڑے
قاہرہ کی مشہور سڑک
استقبالیہ پر بیٹھے ہوئے لڑکوں سے راستہ پوچھ کر قاہرہ کی سب سے بڑی اور مصروف سڑک شارع قصر نیل پر نکل آیا۔ جہاں جگمگ کرتے ہوئے ریسٹورنٹس، نائٹ کلب اور شاپنگ مال بڑا ہی دل کش نظارہ پیش کر رہے تھے۔ وسیع و عریض شاہراہ کے دونوں طرف اونچی اونچی دکانیں، ہوٹل اور ریسٹورنٹس تھے جن میں لوگوں کی بڑی ریل پیل تھی اور دنیا کے دوسرے تمام بڑے شہروں کی طرح یہاں بھی لوگوں کا مقابلہ آگے بھاگتے ہوئے وقت سے چل رہا تھا۔ بھاگم دوڑ کے اس ماحول میں ہم جیسے سیاح بھی پھر رہے تھے اور اپنے حلیے، لباس اور آہستہ خرامی کی وجہ سے صاف پہچانے جاتے تھے۔
یہ بھی پڑھیں: ابوبکر طلحہ اور بسمیل ضیا نے ایچیسن کالج جونیئر ٹینس چیمپئن شپ میں ٹائٹل جیت لیے
مصری ثقافت اور عادات
مصری باشندے میرے لئے اجنبی نہیں تھے۔ سعودی عرب میں میرے ساتھ بے شمار مصری مرد و خواتین کام کرتے تھے جن میں سے کئی میرے ماتحت بھی تھے۔ اسی حوالے سے میں ان کی عادت و اطوار اور نفسیات سے پوری طرح واقف تھا۔ مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں ہے اور یہ ایک مصدقہ بات بھی ہے کہ دنیا کی سب سے زیادہ سست الوجود اور ہڈ حرام قوم مصری ہی ہیں۔ یہ عرب ممالک کا غالباً پہلا ملک تھا جہاں دوپہر کو باقاعدہ قیلولہ کرنے کے لئے سرکاری طور پر تین چار گھنٹے کا وقفہ دیا جاتا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: حکومت نے گاڑیوں کی درآمد کی عارضی اجازت دیدی، نوٹیفکیشن جاری
قاعدے کی رو سے زندگی
یہ آج کی نہیں بلکہ کوئی نصف صدی سے بھی زیادہ پہلے کی بات ہے جب مولانا مودودی نے اپنے سفر نامے میں اس بات کا ذکر کیا تھا کہ کس طرح مصری لوگ دوپہر کو اپنا کاروبار زندگی لپیٹ کر قیلولہ کرنے گھروں کو روانہ ہو جاتے تھے۔ پھر ان کی دیکھا دیکھی سارے عرب ممالک نے بھی شدید گرمی کا بہانہ بنا کر تمام سرکاری دفاتر میں یہ نظام رائج کر دیا حالانکہ وہاں سارے ہی دفاتر، سکول، شاپنگ مال گاڑیاں اور بسیں وغیرہ مکمل طور پر ایئرکنڈیشنڈ ہوتی ہیں۔ سعودی عرب والوں نے بھی ان سے متاثر ہو کر سرکاری دفاتر اور بازاروں میں دو شفٹوں میں کام شروع کر دیا یعنی صبح نوسے دو اور پھر شام کو پانچ سے آٹھ بجے تک۔ اذان ظہر پر بند ہونے والا کاروبار پھر عصر کے بعد ہی کھلتا۔
یہ بھی پڑھیں: ڈنڈا وگڑے تگڑوں کا پیر: عطاء اللّٰہ تارڑ کا 9 مئی والا مقصد
مذہبی زندگی
مصر کے لوگ عموماً بہت مذہبی ہوتے ہیں تاہم دوسرے ملکوں کی طرح یہاں بھی دو انتہا پسند سوچیں دیکھی جاسکتی ہیں۔ کچھ لوگوں کا دین سے لگاؤ اتنا زیادہ ہے کہ وہ ہر وقت ایک چھوٹا سا قرآن جیب میں رکھتے ہیں اور جہاں کہیں بھی موقع ملے اس کی تلاوت کر لیتے ہیں۔ ان کے چہرے پر سکون اور پیشانیوں پر سجدوں کی بنی ہوئی سیاہ محرابیں دور سے ہی چمکتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ وہ دھیمے لہجے اور پیار سے گفتگو کرتے ہیں اور ان کی حتی الامکان کوشش ہوتی ہے کہ ان کی آواز بلند نہ ہونے پائے۔ حتیٰ کہ جب کوئی ان کے خیالات سے اختلاف بھی کرے تو بھی ان کی طبیعت بیزار نہیں ہوتی اور وہ اپنی بات پر زور بھی نہیں دیتے۔ ان کی خواتین مکمل حجاب اور عبایہ میں ملبوس ہوتی ہیں اور بہت ہی محتاط ہو کر اجنبی لوگوں سے بات کرتی ہیں، ورنہ اکثر حالات میں تو وہ پس منظر میں ہی رہتی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: آغا علی نے حنا الطاف کی طلاق کی تصدیق کی
جدیدیت کی طرف جھکاؤ
دوسرا طبقہ جدیدیت کی انتہاؤں کو چھوتا ہے۔ وہ مغربی لباس میں رہتے ہیں۔ ان کا اٹھنا بیٹھنا اونچی سوسائٹی میں ہوتا ہے۔ مے نوشی اور رقص و سرود کی محفلیں ان کے لئے روزمرہ کی بات ہے اور وہ ایسی محافل میں اپنی حاضری یقینی بناتے ہیں۔ ان کی خواتین بھی تمام سرگرمیوں میں مردوں کے شانہ بشانہ رہتی ہیں اور اپنی اداؤں اور ادھورے ملبوسات سے حاضرین محفل کا دل لبھاتی ہیں۔ بیچ کی راہ اختیار کرنے والے بھی کم نہیں ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: بشریٰ بی بی کی رہائی، مبینہ ڈیل کی شرائط کے حوالے سے سینئر صحافی و تجزیہ کار انصار عباسی نے تہلکہ خیز انکشافات کر دیئے
ثقافتی شناخت
زیادہ تر مصری عموماً مسلمان ہونے پر اور اپنا ناطہ اسلام سے جوڑنے میں فخر محسوس کرتے ہیں اور زمانہ قدیم کے مصریوں اور فرعونی دور کے باشندوں سے اپنے تعلق کو بیان کے قابل نہیں سمجھتے اور نہ ہی کبھی اس کا حوالہ دیتے ہیں۔ بلکہ عام مصری تو ان کے بارے میں ایسے ہی تذکرہ کرتے ہیں جس طرح ہم دوسرے ملکوں کے لوگ کیا کرتے ہیں۔ تاہم کچھ لوگ خود کو قدیم مصریوں کی نسلیں ہونے پر فخر محسوس کرتے ہیں اور اپنے آپ کو نحن آل فرعون کہتے ہیں جس کا سیدھا سیدھا مطلب کہ ہم تو فرعونوں کی آل اولاد ہیں۔
کتاب کی اشاعت
نوٹ: یہ کتاب "بک ہوم" نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں) ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔