آئینی ترمیم کی ضرورت ؟
پاکستان کی قانونی تاریخ
پاکستان کے وجود میں آنے کے بعد ہم نے برطانوی حکومت کے 1935 کے آئین کو 14 اگست 1947 کو نافذ کیا۔ اسی دوران ایک حکم نامہ جاری کردیا گیا کہ برطانوی قوانین، پاکستان کی قوانین ہوں گے۔ اس کے تحت، جارج ششم 1952 تک اور بعدازاں ملکہ برطانیہ 1956 تک پاکستان کی آئینی سربراہ رہی۔ آخر کار، ہم نے 1956 میں اپنا آئین بنایا۔
یہ بھی پڑھیں: کون اس گھر کی دیکھ بھال کرے۔۔۔جون ایلیا کو مداحوں سے بچھڑے 23 برس بیت گئے
برطانوی قوانین کی میراث
1956 کے آئین کے آرٹیکل 268 میں یہ لکھا گیا کہ برطانوی دور کے تمام قوانین پاکستان میں نافذ رہیں گے۔ برطانیہ کی 1857 کی جنگ آزادی کی ناکامی کے بعد بنائے گئے قوانین کو ہم نے آزادی کے بعد بھی سینے سے لگا لیا۔
یہ بھی پڑھیں: کروڑوں کا کمرشل ٹائم اور اربوں کی سرمایہ کاری: پاکستان اور بھارت کے میچ کی براڈکاسٹرز کے لیے اہمیت کیوں ہے؟
قانون سازی میں ناکامی
1962 میں ایوب خان کے دور میں بھی ایک آئین بنا لیکن آرٹیکل 268 دوبارہ وہی تحریر کیا گیا۔ 1973 کے موجودہ آئین میں بھی یہ درج ہے کہ برطانوی دور کے قوانین نافذ رہیں گے۔ آج 77 سال بعد بھی ہم نے نوآبادیاتی نظام کے اس قانونی ڈھانچے سے نکلنے کی سنجیدہ کوشش نہیں کی۔
یہ بھی پڑھیں: دنیا کے سب سے بہترین کرنٹ کرکٹر ویرات کوہلی نے صفر پر آؤٹ ہونے کا نا پسندیدہ ریکارڈ قائم کردیا۔
فرسودہ قانونی نظام
ہمارے پاس قانونی نظام ابھی بھی 19ویں صدی کے قوانین پر کھڑا ہے۔ ایک کیس کا فیصلہ ہونے میں کئی دھائیاں گزر جاتی ہیں، جس میں نسلیں تباہ ہوجاتی ہیں۔ ملک میں موجود قانونی پیچیدگیوں کی وجہ سے لوگوں کو عرضی مرفوع کرنے کے لیے کئی سالوں کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: بھارت کا مشہور اور تاریخی فلمی سٹوڈیو 183 کروڑ بھارتی روپے میں فروخت کردیا گیا
عدالتی نظام کی خرابیاں
آج بھی 24 لاکھ سے زائد کیسز عدالتوں میں التواء کا شکار ہیں۔ روزانہ 70 ہزار نئے کیسز رجسٹرڈ ہوتے ہیں، جبکہ ہمارے پاس صرف 4000 ججز ہیں۔ عالمی سطح پر ہر 10 لاکھ افراد کے لیے 90 ججز ہوتے ہیں، جبکہ ہمارے ہاں 10 لاکھ افراد کے لیے صرف 13 ججز ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: والدہ کی خواہش پر دولہا ہیلی کاپٹر میں دلہن گھر لے کر پہنچ گیا
ضروری اصلاحات
آئینی عدالت کے قیام سے عدالتی نظام میں بہتری آسکتی ہے، بشرطیکہ اس میں کسی سیاسی چال کا عمل دخل نہ ہو۔ یہ ضرورت ہے کہ موجودہ حکومت عدلیہ میں اصلاحات کے لیے سنجیدہ اور بغیر سیاسی مفادات کے کام کرے۔
خلاصہ
یہ ضروری ہے کہ حکومت اور اپوزیشن دونوں عوام کی بہتری کے لیے مل کر کام کریں اور موجودہ قوانین کی اصلاح کے لیے ایک مشترکہ کوشش کریں۔
نوٹ: یہ مصنف کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ڈیلی پاکستان کیلئے لکھنا چاہتے ہیں تو اپنی تحاریر ای میل ایڈریس ’[email protected]‘ یا واٹس ایپ "03009194327" پر بھیج دیں۔








