پنجاب حکومت نے زیادتی کا شکار ہونے والی خواتین کے کیسز کے حوالے سے بڑا فیصلہ کر لیا
پنجاب حکومت کا مؤثر فیصلہ
لاہور (ڈیلی پاکستان آن لائن) پنجاب حکومت نے زیادتی کا شکار ہونے والی خواتین کے کیسز کے حوالے سے ایک بڑا فیصلہ کیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: عمران خان نے عالیہ حمزہ کی سربراہی میں چار رکنی سیاسی کمیٹی بنادی
مشاورتی اجلاس کا انعقاد
تفصیلات کے مطابق، پنجاب خواتین تحفظ اتھارٹی کے تعاون سے پارلیمانی کمیشن برائے انسانی حقوق نے خواتین کے تحفظ سے متعلق قوانین، خاص طور پر پنجاب خواتین کے خلاف تشدد کے تحفظ کے قانون پر عمل درآمد میں درپیش چیلنجز پر ایک مشاورتی اجلاس منعقد کیا۔ پنجاب خواتین تحفظ اتھارٹی کی چیئرپرسن حنا پرویز بٹ نے افتتاحی کلمات میں پنجاب میں خواتین کے تحفظ کے قانون پر عمل درآمد کو یقینی بنانے میں اتھارٹی کی کاوشوں کی تعریف کی۔ انہوں نے آئین پاکستان اور متعلقہ قوانین میں دیئے گئے حقوق اور تحفظات کی مکمل فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے مؤثر رابطہ کاری کے نظام کی اہمیت پر زور دیا۔
یہ بھی پڑھیں: سیلاب متاثرہ علاقوں میں تعلیمی ادارے بند رکھنے پر غور
زیرو ٹالرنس پالیسی
حنا پرویز بٹ نے مزید کہا کہ پنجاب کی موجودہ حکومت، مریم نواز کی قیادت میں، خواتین کے خلاف تشدد اور امتیاز کے خلاف زیرو ٹالرنس پالیسی اپنائے ہوئے ہے۔ خواتین کے تحفظ کے موجودہ نظام کو مزید بہتر بنانے کے لیے ہر ممکن اقدامات کیے جا رہے ہیں، جن میں پنجاب بھر میں خواتین کے تحفظ کے مراکز کا قیام شامل ہے۔ بہت سے زیادتی کے کیسز میں معاشرتی رویوں کی وجہ سے لوگ رپورٹ کرنے سے ہچکچاتے ہیں۔ حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ اگر متاثرہ خاتون یا بچی کی فیملی مدعی بننے کے لیے تیار نہیں تو ریاست مدعی بنے گی۔ لوگوں کو شعور دینے کی ضرورت ہے کہ گھروں میں خواتین پر تشدد ایک جرم ہے، جبکہ معاشرتی سوچ اب بھی اسے ایک گھریلو مسئلہ سمجھتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: 1 مئی کیس: شاہ محمود قریشی کی بریت کی درخواست پر فیصلہ محفوظ
نئی سہولیات کا آغاز
ملتان کی طرح لاہور میں بھی وائلنس اگینسٹ وومن سینٹر کا نومبر میں افتتاح کیا جائے گا۔
یہ بھی پڑھیں: Women’s T20 World Cup: Pakistan Loses 7 Wickets for 71 Runs Against India
پولیس کے نظام میں بہتری
انہوں نے مزید کہا کہ اس وقت ہمیں سب سے بڑا مسئلہ یہ درپیش ہے کہ ہم ملزم کو سخت محنت سے گرفتار کرواتے ہیں اور وہ اگلے دن رہا ہو جاتا ہے۔ انہوں نے پولیس سے درخواست کی کہ وہ اپنے سسٹم کو بہتر بنائیں تاکہ ریپ اور تشدد کے ملزمان کیفر کردار تک پہنچ سکیں۔
یہ بھی پڑھیں: افغان رہنما کی 4 ہزار خود کش حملہ آور بھیجنے کی دھمکی ہمارے مؤقف کی سچائی کو ثابت کرتی ہے، دفتر خارجہ
تشویش اور تعاون کی ضرورت
نیشنل کمیشن برائے انسانی حقوق کے رکن جناب ندیم اشرف نے مشاورت کے دوران کہا کہ خواتین کے خلاف تشدد ایک سنگین مسئلہ ہے، اور اس کے خاتمے کے لیے متعلقہ محکموں کی جامع، مشترکہ اور مربوط کوششوں کی ضرورت ہے۔ یہ مشاورتی اجلاس ایک مثبت قدم ہے اور امید ہے کہ یہ مؤثر حکمت عملی وضع کرنے میں مددگار ثابت ہوگا۔
مؤثر عدالتی نظام کی اہمیت
پراسیکیوٹر جنرل پنجاب فرہاد علی شاہ نے اس موقع پر مؤثر عدالتی نظام اور معیاری استغاثہ کی اہمیت کو اجاگر کیا۔ انہوں نے وضاحت کی کہ ان کا محکمہ خواتین کے خلاف تشدد کے مقدمات میں تفتیش اور مؤثر فیصلوں کو یقینی بنا رہا ہے۔








