ایوب خان اقتدار چھوڑنے پر مجبور ہو گئے تو قومی اسمبلی کے سپیکر فضل القادر چودھری کی بجائے چیف آف آرمی سٹاف جنرل یحییٰ خان کو بلا کر چارج دیدیا

مصنف: جسٹس (ر) بشیر اے مجاہد

قسط: 58

ایوب خان اپنے اقتدار کے 10 برس مکمل کرنے کے بعد گیارہویں سال میں اقتدار چھوڑنے پر مجبور ہو گئے تو انہوں نے اپنے آئین کے مطابق اپنی قومی اسمبلی کے سپیکر فضل القادر چودھری کو چارج دینے کی بجائے چیف آف دی آرمی سٹاف جنرل یحییٰ خان کو بلا کر چارج اُنہیں دے دیا۔

جنرل یحییٰ خان نے 1969ء میں مارشل لاء نافذ کرنے، آئین کو منسوخ کرنے اور اسمبلیاں تحلیل کرنے کا اقدام کیا۔ اس پر عدالت میں رٹ دائر کی گئی، جس میں یحییٰ خان کے اس اقدام کو غیر آئینی اور غیر قانونی قرار دینے کی درخواست کی گئی۔ مگر یہ مقدمہ ساڑھے تین برس سے زیادہ عرصہ تک عدالت میں پڑا رہا۔

جب جنرل یحییٰ کو معزول کر دیا گیا اور وہ نظربند تھے، اس وقت بھٹو ملک کے صدر اور پہلے سول مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر تھے۔ سپریم کورٹ نے یحییٰ خان کو غاصب قرار دیتے ہوئے اُن کے مارشل لاء کو ناجائز قرار دیا۔

فاضل عدالت کا فیصلہ بہت اچھا تھا مگر کاش یہ یحییٰ خان کے دور اقتدار میں کیا جاتا۔ لیکن ہماری فاضل عدلیہ اس سلسلے میں اپنا کوئی ریکارڈ بہتر نہیں بنا سکی۔

جب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کا تختہ اُلٹ کر جنرل ضیاء الحق برسر اقتدار آئے، تو اُن کو بھی عدالت کی طرف سے مکمل تعاون فراہم کیا گیا۔ نہ صرف اُن کے مارشل لاء کو جائز قرار دیا گیا بلکہ اُنہیں آئین میں حسب ضرورت ترامیم کرنے کی اجازت بھی دے دی گئی۔

نصرت بھٹو کیس میں جناب جسٹس شیخ انوار الحق نے جنرل ضیاء الحق کو ہر طرح کے اقدامات کے لئے بھی اجازت دے دی۔ یاد رہے کہ پاکستان کی تاریخ میں جسٹس انوار الحق واحد جج تھے جو لاء گریجوایٹ نہیں تھے۔

انہوں نے جب ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دینے کا فیصلہ کیا تو آسٹریلیا کے کسی قانون دان نے لکھا کہ پاکستان میں ایک ایسے جج کے فیصلہ پر جو کہ خود لاء گریجوایٹ نہیں تھا، مگر اس نے ایک معروف بیرسٹر اور قانون کے پروفیسر ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی کی سزا دے دی۔

جنرل ضیاء الحق نے آئین کو منسوخ نہیں کیا، بلکہ انہوں نے اسے معطل رکھا اور جب انہوں نے مناسب سمجھا سپریم کورٹ کی دی ہوئی اجازت کے مطابق متعدد ترامیم کر کے بحال کر دیا۔ حتیٰ کہ اپنے زمانے میں کرائے گئے ریفرنڈم کا ذکر بھی آئین میں کر دیا۔

جب تک جنرل ضیاء الحق اقتدار میں رہے، اعلیٰ عدلیہ سے ماتحت عدلیہ تک سب اُن کے غلاموں، کنیزوں اور باندیوں کی طرح کام کرتے رہے۔ اور جب کچھ سیاسی کارکنوں نے جنرل ضیاء الحق کے غیر جماعتی انتخابات کے خلاف مقدمہ دائر کیا تو عدالتوں میں یہ مقدمہ پڑا رہا۔

جب 17 اگست 1988ء کو جنرل ضیاء الحق کا طیارہ حادثہ کا شکار ہوا اور اعلیٰ عدلیہ کو یقین ہو گیا کہ اب جنرل ضیاء الحق واپس نہیں آ سکتے، تو انہوں نے غیر جماعتی انتخابات کا مذاق اُڑاتے ہوئے جماعتی بنیادوں پر عام انتخابات کا فیصلہ صادر فرما دیا۔

جنرل ضیاء الحق کے انتقال کے بعد اگرچہ جمہوریت بحال ہو گئی۔ صدر غلام اسحق خان نے جو نگران حکومتیں بنائی تھیں، ان میں سے ایک صوبائی حکومت کا مقدمہ ہائیکورٹ میں تھا۔ جہاں سے وہ بحال ہو گئی۔

بحالی کے تقریباً ایک گھنٹہ بعد اعلیٰ عدلیہ کے ایک جج نے بحالی کا آرڈر منسوخ کر دیا۔ اعلیٰ عدلیہ کے وہ جج ریٹائر ہونے والے تھے۔ چند دن کے بعد یہ ریٹائر جج وفاقی محتسب کے عہدہ پر متمکن ہو گئے تھے۔

یہ کمزوریاں صرف پاکستان کی اعلیٰ عدلیہ میں ہی ہیں یا دنیا کے دیگر ممالک میں بھی ایسا ہی ہوتا ہے؟(جاری ہے)

نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں) ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

Related Articles

Back to top button
Doctors Team
Last active less than 5 minutes ago
Vasily
Vasily
Eugene
Eugene
Julia
Julia
Send us a message. We will reply as soon as we can!
Mehwish Hiyat Pakistani Doctor
Mehwish Sabir Pakistani Doctor
Ali Hamza Pakistani Doctor
Maryam Pakistani Doctor
Doctors Team
Online
Mehwish Hiyat Pakistani Doctor
Dr. Mehwish Hiyat
Online
Today
08:45

اپنا پورا سوال انٹر کر کے سبمٹ کریں۔ دستیاب ڈاکٹر آپ کو 1-2 منٹ میں جواب دے گا۔

Bot

We use provided personal data for support purposes only

chat with a doctor
Type a message here...