فرنچ ولندیزی اور پرتگالی حکمران جن علاقوں میں رہے وہاں قانون اپنے مذہب کی اقدار کیساتھ نافذ کرتے مگر انگریز کامزاج اس سے مختلف تھا.
مصنف
جسٹس (ر) بشیر اے مجاہد
یہ بھی پڑھیں: جمعیت علمائے اسلام کا جمعے کو یوم تشکر منانے کا اعلان
قسط
59
یہ بھی پڑھیں: جن کی اپنی کوئی کارکردگی نہیں وہ دوسروں سے سوال کر رہے ہیں: عظمیٰ بخاری
عدالتی نظام کی تاریخ
پاکستان میں ایک بہت ہی منظم اور آزمودہ عدالتی نظام موجود ہے۔ اس نظام کی بنیاد کچھ اہم عناصر پر ہے جن میں سب سے پہلے ملک کا بنیادی قانونی ڈھانچہ ہے، پھر اخلاقی اقدار، اور تیسری اور سب سے زیادہ ضروری بنیاد تعلیم ہے۔
یہ بھی پڑھیں: پنجاب حکومت کی شہریوں کو دھواں چھوڑتی گاڑیوں کی اطلاع 15 پر دینے کی ہدایت
قانونی ڈھانچے کی تحریک
پاکستان کا قانونی ڈھانچہ 1772ء کے اُس انگریزی نظام پر قائم ہے جو انگریز حکمران لارڈ ہٹنگز نے بنگال میں متعارف کرایا۔ یہ عدالتی نظام وقت کے ساتھ ساتھ تبدیلیوں اور ترقیاتی عمل کے ساتھ بڑھتا رہا۔ انگریز کے زیر حکمرانی علاقوں میں انگریزی مقبوضات کے ساتھ علاقائی رسم و رواج اور مقامی مذہبی اصولوں کو مدنظر رکھ کر انگریزی قانون میں وسعت پیدا کی جاتی رہی۔
یہ بھی پڑھیں: متنازعہ فلم ’’کشمیر فائلز‘‘ بالی وڈ کی سب سے زیادہ منافع بخش فلم بن گئی
انگریزوں کا مقامی نظام
انگریز حکمران دوسروں سے مختلف تھے کیونکہ وہ مقامی مذہب اور اقدار کو قوانین کی روح بناتے تھے۔ ان کی حکمت عملی یہ تھی کہ وہ مقامی لوگوں کو خوش کر کے طویل عرصے تک حکومت کریں۔ انہوں نے مقبوضہ علاقوں میں تعلیم کا نظام وضع کیا جس کے ذریعے وہ اپنی تہذیب کو مقامی آبادی میں منتقل کر سکے۔
یہ بھی پڑھیں: محمد عامر سابق کپتان بابراعظم کے حق میں میدان میں آ گئے ، اہم ییغام جاری کر دیا
عدالتی نظام کی نوعیت
ایسٹ انڈیا کمپنی ایک تجارتی کمپنی سے حکمران تاجروں کے ادارہ میں تبدیل ہوگئی۔ برطانوی حکومت نے ایسٹ انڈیا کمپنی کے مقبوضہ علاقوں کو اپنے کنٹرول میں لیا، اور انڈیا براہ راست برطانیہ کی نوآبادی میں تبدیل ہوگیا۔
یہ بھی پڑھیں: خضدار: قبائلی رہنما میر مہراللہ محمد حسنی تین ساتھیوں سمیت قتل
عدالتی نظام کی اقسام
برطانوی حکومت نے انڈیا میں دو قسم کے عدالتی نظام رائج کیے:
- دیوانی
- فوجداری
دیوانی عدالتیں
دیوانی عدالتوں میں جائیداد، وراثت، ملکیت وغیرہ کے مقدمات کی سماعت کی جاتی ہے۔ یہ عدالتیں پرانے ریکارڈ اور گواہی کی بنیاد پر فیصلے کرتی ہیں، اور مذہبی سکالرز یا مولوی کی شہادت پر بھی فیصلے کیے جاتے ہیں۔
فوجداری عدالتیں
فوجداری عدالتیں معاشرتی جرائم، چوری، ڈاکہ، قتل، دھوکہ دہی وغیرہ کے مقدمات کی سماعت کرتی ہیں۔
جاری ہے)
نوٹ
یہ کتاب "بک ہوم" نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)۔ ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔