لاہور میں انسٹاگرام سے شروع ہونے والے مبینہ ریپ کے واقعے نے کیسے پُرتشدد مظاہروں کو جنم دیا؟
’پاکستان میں خواتین کے حقوق کو طویل عرصے سے نظرانداز کیا گیا ہے۔ ہر روز ہم ہراسانی، ریپ اور تشدد کے کیسز کا مشاہدہ کرتے ہیں۔ پنجاب کالج کے (مبینہ) واقعے نے پورے پاکستان کو ہلا کر رکھ دیا ہے، لیکن حکومت تعلیمی اداروں میں لاکھوں لڑکیوں کو مطمئن کرنے کے بجائے صرف ان الزامات کی تردید کرنے میں مشغول ہے۔‘
سوشل میڈیا پر ایک صارف کی جانب سے حال ہی میں شیئر کی جانے والی اس تحریر کا مقصد کسی قسم کا پروپیگنڈا یا غلط معلومات پھیلانا نہیں ہے۔ یہ پوسٹ بھی اُن ہزاروں صارفین کی پوسٹس کی طرح ہی ہے جنہیں لاہور کے ایک نجی کالج میں ایک طالبہ کے مبینہ ریپ کی غیرمصدقہ اطلاعات موصول ہوئی ہیں، جبکہ حکومتی تردیدوں اور وضاحتوں کی خبریں پچھلے ایک ہفتے سے زیادہ عرصے سے نجی چینلز کے ذریعے جاری ہیں، اور یہ صارفین اپنی تشویش کا اظہار کر رہے ہیں۔
اگرچہ نجی کالج کی انتظامیہ، پنجاب کی صوبائی حکومت، پنجاب پولیس اور ایف آئی اے سمیت دیگر تحقیقاتی ادارے اس مبینہ واقعے کے ہونے کی تردید کر چکے ہیں لیکن باوجود اس کے لاہور، راولپنڈی اور گوجرانوالہ سمیت متعدد شہروں میں طلبا نے سڑکوں پر نکل کر احتجاج کیا، جس میں پولیس کے ساتھ ان کی جھڑپیں بھی ہوئی اور کئی طلبا کو گرفتار کیا گیا۔
Uses in Urdu نے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ آخر کالج میں مبینہ ریپ کی غیرمصدقہ اطلاعات کیسے پھیلیں، جو آگے چل کر پرتشدد احتجاج میں تبدیل ہو گئیں؟
انسٹاگرام کا استعمال
سوشل میڈیا سے شروع ہونے والی اس ’غیرمصدقہ مہم‘ کا مقدمہ پنجاب کالج کی پرنسپل کی جانب سے 16 اکتوبر کو وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے سائبر کرائم سرکل میں درج کروایا گیا تھا۔
سائبر کرائم سرکل میں درج کردہ ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ ’سوشل میڈیا پر اس جھوٹی مہم‘ کی ابتدا 12 اکتوبر کو ہوئی تھی۔
Uses in Urdu کو اس واقعے کی تحقیقات کے دوران معلوم ہوا کہ اس مبینہ واقعے کی غیرمصدقہ اطلاع سب سے پہلے ٹوئٹر یا فیس بک کے بجائے انسٹاگرام کے ذریعے پھیلائی گئی۔
ایف آئی اے کی جانب سے درج کروائے گئے مقدمے میں 13 انسٹاگرام اکاؤنٹس کا ذکر کیا گیا ہے، جہاں سب سے پہلے اس نوعیت کی غیرمصدقہ اطلاعات پوسٹ کی گئیں اور انہیں شیئر کیا گیا۔
ان 13 اکاؤنٹس میں سے بیشتر اب ’ڈی ایکٹویٹ‘ (غیر فعال) ہو چکے ہیں یا معطل کر دیے گئے ہیں، لیکن کچھ اب بھی متحرک ہیں۔ ایک ایسا ہی اکاؤنٹ ’ساکازم‘ ہے، اور اس اکاؤنٹ کے ذریعے اب بھی طلبا کو احتجاج کی دعوت دی جا رہی ہے۔
پنجاب کالج کی انتظامیہ کی ایک رُکن نے Uses in Urdu کو بتایا کہ جب سب سے پہلے اس حوالے سے انسٹاگرام پر ایک نامعلوم اکاؤنٹ نے ’غلط معلومات پر مبنی پوسٹ لگائی‘ تو انتظامیہ نے سوچا کہ اگر اس پر کارروائی کی گئی تو یہ ’گمراہ کُن بات کے مزید پھیلاؤ کا ذریعہ بنے گا۔’
انتظامیہ کے اُس رُکن کے مطابق، اُن کا یہ خدشہ حقیقت میں بدل گیا جب یہ ابتدائی پوسٹس ایک ’منظم مہم‘ کی شکل اختیار کر گئیں۔
یاد رہے کہ پنجاب حکومت نے اس واقعے کی تحقیقات کے لیے صوبائی چیف سیکریٹری کی سربراہی میں سات رُکنی کمیٹی تشکیل دی تھی جو اپنی رپورٹ میں یہ بیان کرتی ہے کہ 'کالج کی انتظامیہ صورتحال کو پیشہ ورانہ طریقے سے ہینڈل کرنے میں ناکام رہی۔'
تاہم پنجاب گروپ آف کالجز کے ڈائریکٹر آغا طاہر اعجاز نے Uses in Urdu کو بتایا کہ اُن کے کالج کے اساتذہ نے اس معاملے کو احسن انداز میں ہینڈل کیا۔ انہوں نے کہا کہ 'جب 12 اکتوبر کو اس طرح کی پہلی رپورٹ ہمارے سامنے آئی تو سب سے پہلے ہم نے تحقیقات کیں کہ کہیں ایسا کچھ ہوا تو نہیں؟ ہم نے ہسپتالوں میں پوچھ گچھ کی، ایمبولینس والوں سے سوالات کیے اور پولیس کے ساتھ مل کر سی سی ٹی وی ویڈیوز بھی دیکھیں، لیکن ہمیں ایسے کسی واقعے کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔'
یہ معاملہ اس وقت مزید سنگین صورت اختیار کر گیا جب پنجاب کے وزیر تعلیم رانا سکندر حیات نے احتجاج کرتے طلبا کے درمیان کھڑے ہو کر دعویٰ کیا کہ 'کالج انتظامیہ نے ویڈیو ثبوت ضائع کیے، اس کے بعد سی سی ٹی وی کیمرے بند کیے گئے۔۔۔'
بعدازاں صحافی منصور علی خان سے بات کرتے ہوئے رانا سکندر نے کہا کہ ان کی بات چیت کئی منٹ طویل تھی جس میں کچھ حصہ کاٹ کر دکھایا گیا۔ انہوں نے یہ بھی وضاحت کی کہ وہ جو بات کر رہے ہیں وہ طلبا کا مؤقف ہے نہ کہ اُن کا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ کالج کی رجسٹریشن منسوخی اور گارڈ کو حراست میں صرف اس لیے لیا گیا کیونکہ الزامات سامنے آنے کے بعد یہ شفافیت کو یقینی بنانے کا تقاضہ تھا۔
Uses in Urdu نے کالج انتظامیہ کے علاوہ احتجاج میں حصہ لینے والے طلبا، اُن کے والدین اور اس کیس سے منسلک تحقیقاتی اداروں کے اہلکاروں سے بات کی ہے۔
پنجاب کالج اور دیگر تعلیمی اداروں کے متعدد طلبا نے Uses in Urdu کو بتایا کہ انھوں نے اس معاملے کی تفصیلات 'صرف دیگر طلبا سے سُنی ہیں' اور یہ کہ انھوں نے خود سے کچھ نہیں دیکھا۔
پنجاب کالج کے ایک کیمپس کے ایک طالب علم نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ 'ہمیں سب کچھ سوشل میڈیا سے پتا چل رہا تھا۔ اس کے بعد کیمپس 10 کی طالبات نے ہی سب سے پہلے واٹس ایپ گروپس میں ویڈیوز شیئر کی تھیں کہ انھیں ٹیچرز تنگ کر رہے ہیں اور اس معاملے پر بولنے سے روک رہے ہیں۔'
اس طالب علم کی جانب سے Uses in Urdu کو کچھ ویڈیوز بھی مہیا کی گئیں جو ابتدائی طور پر طلبا کے ایک واٹس ایپ گروپ میں شیئر کی گئی تھیں۔ یہ ویڈیوز انسٹاگرام سے ڈاؤن لوڈ کر کے واٹس ایپ گروپ میں شیئر کی گئی تھیں۔
یاد رہے کہ ابتدائی طور پر طلبا کے واٹس ایپ گروپس میں جس لڑکی کو ریپ کا شکار بتایا جا رہا تھا، اُن کا خاندان وضاحت کر چکا ہے کہ اُن کی بیٹی کے ساتھ ایسا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا اور یہ کہ وہ دو اکتوبر سے گھر میں گرنے کے سبب لگنے والی چوٹ کی وجہ سے ہسپتال میں زیرِ علاج ہیں۔
پنجاب حکومت کی جانب سے قائم کی گئی کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ اس تمام معاملے کے سبب نہ صرف ریپ کا شکار بتائی گئی طالبہ کی 'زندگی اور ساکھ خراب' ہوئی، بلکہ اس کے سبب اُن کی چار بہنیں اور والدہ بھی 'ذہنی تناؤ' کا شکار ہوئیں۔
رپورٹ کے مطابق 'جب یہ بات ثابت ہو گئی کہ جس لڑکی کو متاثرہ قرار دیا جا رہا ہے اس کا اس مبینہ واقعہ سے کوئی لینا دینا نہیں، تو پھر نفرت انگیزی پھیلانے والوں نے دو مزید لڑکیوں کے نام لینا شروع کر دیے اور اُن کی زندگی اور ساکھ کو نقصان پہنچایا۔'
اس تحریر کی ابتدا میں 'سرکازم' نامی جس اکاؤنٹ کا ذکر ہے وہ واٹس ایپ پر ایک کمیونٹی بھی چلا رہا ہے، جس کا نام 'ایس این این' ہے اور اس کے نام کے آگے فلسطین کا جھنڈا بنا ہوا ہے۔ اسی اکاؤنٹ کے ہینڈلر نے انسٹاگرام پر ایک کمیونٹی بھی بنائی ہوئی ہے جہاں سینکڑوں لوگ موجود ہیں۔
ایف آئی اے کے سائبر کرائم سرکل کی جانب سے درج ایف آئی آر کے مطابق، "انسٹاگرام سے شروع ہونے والی ڈِس انفارمیشن پر مبنی یہ مہم پھر دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر بھی پھیل گئی، اور پھر وہیں سے احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوا۔"
ایف آئی اے نے 36 افراد کے خلاف جو مقدمہ درج کیا، ان میں عمران ریاض خان اور جمیل فاروقی جیسے کچھ یوٹیوبرز بھی شامل ہیں۔
تحقیقات کے دوران، ایف آئی اے نے پنجاب گروپ آف کالج کی اُن دو طالبات سے بھی پوچھ گچھ کی، جنہوں نے ابتدائی طور پر دعویٰ کیا کہ اُن کے پاس مبینہ ریپ کے واقعے کی تفصیلات موجود ہیں اور یہ کہ انہوں نے لڑکی کی چیخیں اور ایمبولینس کو خود دیکھا ہے۔
ایف آئی اے حکام کے مطابق، ان دونوں لڑکیوں نے تفتیش کے دوران یہ دعویٰ کیا کہ انہوں نے جو کچھ کہا وہ دیگر طلبا سے سنا تھا۔
لاہور میں ایک پریس کانفرنس کے دوران ایک لڑکی نے کہا، "ہمارا انسٹاگرام پر ایک گروپ تھا جس کا نام 'ہم ج justice چاہتے ہیں' تھا۔ اس میں تمام بچیاں معلومات شیئر کر رہی تھیں۔۔۔ یہ باتیں مجھے بھی معلوم ہوئیں اور میں نے بھی بغیر تحقیق کے آگے شیئر کر دیں۔"
ایف آئی اے نے غلط معلومات پھیلانے کے الزام میں متعدد افراد کو حراست میں لیا، تاہم پنجاب کی وزیر اطلاعات اعظمیٰ بخاری کے مطابق، "ان میں سے زیادہ تر کو عدالتوں نے رہا کر دیا۔"
احتجاجی مظاہرے کیسے پھیلے؟
پنجاب کالج اور دیگر تعلیمی اداروں کے طلبا نے بتایا کہ جب مبینہ ریپ کی غیر مصدقہ اطلاعات سوشل میڈیا پر پھیل گئیں تو طلبا تنظیمیں بھی اس معاملے پر متحرک ہو گئیں۔
واٹس ایپ گروپس میں باقاعدہ احتجاج کی کالیں دی گئیں، اور ان گروپس میں بھیجے جانے والے پیغامات کے اسکرین شاٹس بھی فراہم کیے گئے ہیں۔
لاہور کے طلبا حلقوں میں ایک طالب علم نے کہا، "پہلا احتجاج پُرامن تھا، لیکن پولیس نے طلبا پر تشدد کیا، جس سے دیگر طلبا تنظیمیں اور دوسرے تعلیمی ادارے بھی شامل ہو گئے۔"
وجوہات کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا، "پنجاب یونیورسٹی کے ہاسٹل میں حال ہی میں ایک لڑکی نے خودکشی کی تھی اور ایک اور ادارے میں ایک لڑکی کو ہراساں کیا گیا تھا۔ یہ سب اطلاعات طلبا کے پاس پہلے سے تھیں اور وہ غصے میں تھے، اور جب پنجاب کالج والے معاملے کی خبریں پھیلیں تو انہیں اپنا غصہ نکالنے کا موقع مل گیا۔"
یاد رہے کہ پاکستان میں ہر سال ریپ کے سینکڑوں کیسز درج ہوتے ہیں۔ سسٹین ایبل سوشل ڈیویلپمنٹ آرگنائزیشن کی ایک رپورٹ کے مطابق سنہ 2023 میں ملک بھر میں 6624 ریپ کے واقعات درج ہوئے، جن میں سے 721 لاہور میں شامل تھے۔ اس حوالے سے فی الحال سرکاری سطح پر ڈیٹا دستیاب نہیں ہے۔
لاہور میں ایک شخص نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ اُن کے دو بچے پنجاب کالج میں فرسٹ ایئر اور سیکنڈ ایئر کے طالب علم ہیں۔ اُن کا کہنا تھا کہ "پی جی سی کے جو (واٹس ایپ) گروپس ہیں، پی جی سی کی انتظامیہ نے یہ نہیں بنائے۔ کوئی ٹیچر یہ گروپ نہیں بناتا، کلاس کے جو سی آرز ہیں وہ ایڈمن ہوتے ہیں اور ان گروپس میں پھر بچوں کو ایڈ کیا جاتا ہے۔ کالج کے ٹیچر سی آر کو کہتے ہیں کہ یہ بات گروپ کے ذریعے بچوں کو بتا دو تاکہ وہ آگاہ رہیں۔"
انھوں نے مزید کہا کہ انھوں نے اپنے بچوں کے واٹس ایپ گروپس دیکھے ہیں جن میں گذشتہ پیر کی صبح تک کسی بھی طرح کی کوئی ایسی بات نہیں تھی۔ "مگر یہ (دونوں بیٹے) جب پیر کو کالج گئے ہیں تو پہلے پیریڈ کے بعد انتظامیہ نے انھیں گھر بھیج دیا۔"
Uses in Urdu کو لاہور میں مقیم ایف آئی اے کے ایک سینیئر اہلکار نے بتایا کہ اُن کی تحقیق کے مطابق سوشل میڈیا پر اس معاملے کو ایک سیاسی جماعت کی طرف "جھکاؤ" رکھنے والے یوٹیوبرز نے بھی ہوا دی تھی۔
دوسری جانب ایف آئی اے سائبر کرائم سرکل کے ایک اور اہلکار احتجاجی مظاہروں کے حوالے سے کہتے ہیں کہ یہ "واٹس ایپ گروپوں کی مدد سے منعقد ہوئے" اور یہ کہ انھوں نے احتجاج کرنے سے متعلق پیغامات تفتیش کے دوران سٹوڈنٹس کے موبائل فونز میں بھی دیکھے ہیں۔
سوشل میڈیا کا جائزہ لیا جائے تو اس پر پی ٹی آئی کا طلبا ونگ، جماعت اسلامی کے خواتین ونگ اور پروگریسو سٹوڈنٹس کلیٹیو سمیت متعدد طلبا گروہ بھی متحرک رہے ہیں، کہیں سے احتجاج کی کال دی گئی تو کسی تنظیم نے تحقیقات کا مطالبہ کیا تھا۔
تاہم نو روز گزر جانے کے باوجود اگر اب سوشل میڈیا کا جائزہ لیا جائے تو طلبا سمیت بہت سے صارفین بضد ہیں کہ ریپ کا یہ مبینہ واقعہ ناصرف پیش آیا ہے بلکہ مختلف شخصیات اسے دبانے کی کوشش کر رہی ہیں۔ تاہم حکومتی تفتیش اور رپورٹس اس واقعے کے پیش آنے کی یکسر نفی کرتی ہیں اور ان کے مطابق فی الحال محض کوئی ایک بھی ثبوت کسی جانب سے پیش نہیں کیا جا سکا ہے۔