“یحییٰ سنوار کے بعد حماس کا نیا سربراہ کون بن سکتا ہے؟”
حماس کے سربراہ یحییٰ سنوار کی اسرائیلی فوج کے ہاتھوں ہلاکت کے بعد اب یہ قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں کہ اس تنظیم کا اگلا سربراہ کون ہو گا؟
حماس کے دو عہدیداروں نے Uses in Urdu کو بتایا ہے کہ تنظیم کے رہنما یحییٰ سنوار کے جانشین کے انتخاب کے لیے بات چیت بہت جلد شروع ہو جائے گی۔
دوسری جانب متعدد حلقوں میں یحییٰ سنوار کے نائب اور حماس کے سینیئر عہدیدار خلیل الحیا کو اس عہدے کے لیے ایک مضبوط امیدوار سمجھا جا رہا ہے۔
غزہ سے باہر موجود حماس کی قیادت میں خلیل الحیا ایک انتہائی سینیئر عہدیدار ہیں۔ قطر میں مقیم خلیل الحیا اِس وقت حماس اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی کے لیے ہونے والے مذاکرات میں حماس کے وفد کی قیادت کر رہے ہیں۔
خلیل الحیا کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ غزہ کی صورتحال کے بارے میں گہری معلومات، رابطے اور تفہیم رکھتے ہیں۔
یحییٰ سنوار کی ہلاکت کے بعد اب آئندہ آنے والے دنوں میں حماس کے رہنما ایک بار پھر اکھٹے ہوں گے تاکہ اُن کے جانشین کا انتخاب کر سکیں۔
یاد رہے یحیٰی سنوار رواں برس ہی تہران میں سابق حماس رہنما اسماعیل ہنیہ کی ہلاکت کے بعد تنظیم کے سربراہ بنے تھے۔
اسرائیل میں یحییٰ سنوار کو سات اکتوبر 2023 کو اسرائیل پر ہونے والے حملوں کا ’ماسٹر مائنڈ‘ قرار دیا جاتا تھا اور ماہرین کے مطابق اُن کی تقرری اسرائیل کے خلاف بغاوت کا ایک جرات مندانہ پیغام تھا۔
جولائی 2024 کے بعد سے غزہ جنگ بندی سے متعلق مذاکرات تعطل کا شکار ہیں اور بہت سے لوگوں کا ماننا ہے کہ سنوار کی قیادت جنگ بندی معاہدے کی راہ میں ایک اہم رکاوٹ تھی۔ گذشتہ دنوں Uses in Urdu نے رپورٹ کیا تھا کہ یحییٰ سنوار سفارتی ذرائع سے غزہ کے مسئلے کے حل کے بجائے عسکری حل پر زیادہ زور دیتے تھے۔
حماس کے ایک سینیئر عہدیدار نے Uses in Urdu سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یحییٰ سنوار کی ہلاکت کے باوجود جنگ بندی کو قبول کرنے اور اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی کے لیے حماس کی شرائط میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔
حماس جنگ بندی کے عوض غزہ سے اسرائیل کے مکمل انخلا، انسانی امداد کی بلا روک ٹوک غزہ آمد اور جنگ زدہ علاقوں کی تعمیر نو کا مطالبہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ ان شرائط کو اسرائیل نے یکسر مسترد کرتے ہوئے اصرار کیا ہے کہ حماس کو ہتھیار ڈال دینے چاہییں۔
اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نتن یاہو کی جانب سے حماس سے ہتھیار ڈالنے کے مطالبے کے بارے میں پوچھے گئے سوال کے جواب میں حماس کے عہدیدار نے کہا کہ ’ہمارے لیے ہتھیار ڈالنا ناممکن ہے۔ ہم اپنے لوگوں کی آزادی کے لیے لڑ رہے ہیں اور ہم ہتھیار ڈالنے کو قبول نہیں کریں گے۔ ہم آخری گولی اور آخری سپاہی تک لڑیں گے، جیسا کہ سنوار نے کیا تھا۔‘
سنوار کی ہلاکت کئی دہائیوں میں تنظیم کو پہنچنے والے سب سے بڑے نقصانات میں سے ایک ہے۔ اگرچہ ان کا متبادل لانا ایک چیلنج ہے لیکن حماس کی 1990 کی دہائی سے قیادت کے نقصانات برداشت کرنے کی تاریخ رہی ہے۔
اگرچہ اسرائیل حماس کے زیادہ تر رہنماؤں اور بانیوں کو ہلاک کرنے میں کامیاب رہا ہے لیکن تحریک نئے رہنماؤں کو تلاش کرنے کی اپنی صلاحیت میں لچکدار ثابت ہوئی ہے۔
’یحییٰ سنوار کے بھائی کا کردار اہم ہو گا‘
اس بحران کے دوران غزہ میں قید اسرائیلی یرغمالیوں کی قسمت کے حوالے سے یہ سوال اب بھی موجود ہیں کہ ان کی حفاظت اور سلامتی کا ذمہ دار کون ہو گا۔
اس تناظر میں یحییٰ سنوار کے بھائی محمد سنوار ایک اہم شخصیت کے طور پر اُبھرے ہیں۔
خیال کیا جاتا ہے کہ وہ حماس کے باقی ماندہ مسلح گروہوں کی قیادت کر رہے ہیں اور غزہ میں تحریک کے مستقبل کی تشکیل میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔
ایک طرف حماس کو اس سخت لمحے کا سامنا ہے تو دوسری طرف غزہ میں جنگ جاری ہے۔
سنیچر کے روز شمالی غزہ کے جبالیہ پناہ گزین کیمپ میں اسرائیلی فوج کے حملوں میں درجنوں افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ حماس یہاں دوبارہ منظم ہونے کی کوشش کر رہی ہے۔
بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ یحییٰ سنور کی موت حماس کے لیے بڑا دھچکا ہے۔ اگست میں اسماعیل ہانیہ کی موت کے بعد حماس نے انھیں منتخب کرتے ہوئے یہ اشارہ دیا تھا کہ حماس اسرائیل کے سامنے جھکنے والی نہیں ہے۔