نیوزی لینڈ نے انڈیا میں 36 سال بعد ٹیسٹ میچ جیت لیا، بینگلور ٹیسٹ آٹھ وکٹوں سے فتح کر لیا
جب سے گوتم گمبھیر بھارت کے نئے کوچ بنے ہیں، ٹیم نے ٹی ٹوئنٹی، ون ڈے اور ٹیسٹ کرکٹ میں مسلسل کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ اس وقت تک کسی نے نہیں سوچا تھا کہ یہ ٹیم اپنے ہی میدان پر نیوزی لینڈ کے خلاف ٹیسٹ میچ ہار جائے گی۔
بنگلور ٹیسٹ میں نیوزی لینڈ نے آٹھ وکٹوں سے فتح حاصل کرکے سیریز میں برتری حاصل کی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ نیوزی لینڈ کی یہ انڈیا میں 38 سال بعد پہلی ٹیسٹ فتح ہے۔ کیوی بلے باز رچن رویندر کو اپنی سنچری پر میچ کا بہترین کھلاڑی قرار دیا گیا ہے۔
بنگلور کے چناسوامی سٹیڈیم میں کھیلا جانے والا پہلا ٹیسٹ بارش کی وجہ سے پہلے دن شروع نہ ہو سکا اور دوسرے دن جب بھارت نے ٹاس جیت کر بیٹنگ کا فیصلہ کیا تو کسی کو بھی یہ گمان نہ تھا کہ گھریلو پچز پر یہ ان کا سب سے کم سکور ہوگا۔
بھارت کی ٹیم صرف 46 رنز پر ڈھیر ہوگئی۔ بھارت کے سکور کارڈ پر نظر ڈالیں تو صفر کی بھرمار دکھائی دیتی ہے۔ وراٹ کوہلی، سرفراز خان، کے ایل راہل، رویندرا جڈیجا اور آر اشون سب نے صفر پر پلٹ گیا۔
بھارت کے لیے سب سے قابل اعتماد بلے باز رشبھ پنت نے 20 رنز بنائے جبکہ یشسوی جیسوال 13 رنز بنا کر دوسرا نمبر پر رہے۔ یعنی ان دونوں کے علاوہ باقی کھلاڑیوں نے مل کر صرف نو رنز بنائے جب کہ نیوزی لینڈ نے چار ایکسٹرا رنز دیے۔
یہ مجموعہ بھارت کا تیسرا سب سے کم سکور تھا۔ اس سے قبل سنہ 2020 میں آسٹریلیا کے خلاف آسٹریلیا میں بھارتی ٹیم 36 رنز پر آؤٹ ہوئی تھی جو کہ ان کا سب سے کم سکور ہے جبکہ انگلینڈ کے خلاف 42 رنز طویل عرصے تک ان کا سب سے کم سکور رہا تھا۔
بھارت کی ہوم ٹیسٹ میں اتنی ناقص بیٹنگ کارکردگی پر بہت سے لوگ حیرت زدہ ہیں کیونکہ پچھلی سیریز میں بنگلہ دیش کے خلاف بھارت نے شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے دو صفر سے سیریز اپنے نام کی تھی اور ایک میچ تو صرف دو دنوں میں ہی جیت لیا تھا۔
بہرحال نیوزی لینڈ کے خلاف پہلے ٹیسٹ کی پہلی اننگز میں اس ناقص کارکردگی کے باوجود بھارتی ٹیم سے بھرپور مزاحمت کی توقع کی جا رہی تھی۔
لیکن یہ امید اوپنر ڈیون کونوے اور رچن رویندرا کی بیٹنگ کے سامنے دم توڑنے لگی، کونوے نے 91 رنز بنائے جبکہ رچن نے 134 رنز کی یادگار اننگز کھیلی۔
رہی سہی کسر بولر ٹم ساؤدی نے پوری کر دی جب انہوں نے پانچ چوکے اور چار چھکوں کی مدد سے 65 رنز بنائے اور اس طرح نیوزی لینڈ کو 356 رنز کی برتری حاصل ہو گئی۔
بھارت نے دوسری اننگز میں پہلی اننگز کا ازالہ کرنے کا عزم کر لیا اور انہیں ایک شاندار پارٹنر شپ ملی۔ ان کے پویلین لوٹنے کے بعد پہلی اننگز میں صفر پر آؤٹ ہونے والے وراٹ کوہلی اور سرفراز خان نے بھارت کے پچھڑنے کی کہانی لکھنا شروع کی۔
اگرچہ کوہلی تیسرے دن کی آخری گیند پر 70 رنز بنا کر آؤٹ ہوگئے، لیکن سرفراز خان نے چوتھے دن 70 رنز سے آگے کھیلنا شروع کیا اور ٹیسٹ کرکٹ میں اپنی پہلی سنچری سکور کی۔
انھوں نے جارحانہ انداز میں کھیلتے ہوئے 150 رنز بنائے۔ دوسری جانب وکٹ کیپر بیٹسمین رشبھ پنت مزید جارحانہ انداز اور لے میں نظر آئے۔
جب یہ دونوں بیٹنگ کر رہے تو ایسا لگ رہا تھا کہ انڈین ٹیم نیوزی لینڈ کے لیے 200 رنز سے زیادہ کا ہدف دینے میں کامیاب ہو جائے گی۔
لیکن پنت 99 رنز پر آؤٹ ہو گئے جس کے بعد پوری ٹیم پھر سے لڑکھڑا گئی۔
433 رنز پر پنت آؤٹ ہوئے اور پوری ٹیم 462 رنز پر سمٹ گئی۔ اس طرح نیوزی لینڈ کو 108 رنز کا ہدف ملا۔
نوشتہ دیوار تو پہلے ہی دن لکھا جا چکا تھا، اب یہ لگ رہا تھا کہ چوتھے دن ہی کھیل ختم ہو جائے گا کیونکہ دن پورا ہونے میں ابھی وقت بچا تھا اور کم از کم 21 اورز باقی تھے۔
لیکن اسی دوران طوفانی بارش نے چار گیندوں کے بعد ہی میچ میں خلل ڈال دیا اور پھر آخری دن بھی میچ تاخیر سے شروع ہوا۔
انڈیا نے اگرچہ شروع میں ہی صفر پر ٹام لیتھم کا وکٹ حاصل کر لیا لیکن پھر کونوے اور ول ینگ نے ٹیم کو سنبھال لیا۔ لیکن پھر کونوے 17 رنز بنا کر آوٹ ہو گئے۔
ان کی جگہ رچن آئے اور انھوں نے جارحانہ انداز میں مزید کسی نقصان کے مطلوبہ رنز حاصل کر لیے اور یہ میچ نیوزی لینڈ نے آٹھ وکٹوں سے جیت لیا۔
ول ینگ نے جب رویندر جڈیجہ کی گیند کو چار رنز کے لیے باؤنڈری لائن کے پار بھیجا تو نیوزی لینڈ کے ڈریسنگ روم میں خوشی کی لہر نظر آئی اور ول ینگ 48 رنز بنا کر ناٹ آؤٹ رہے۔
رچن کو ان کی بہترین سنچری کے لیے مین آف دی میچ قرار دیا گيا۔
ابھی اس ٹیسٹ سیریز میں مزید دو ٹیسٹ میچز باقی ہیں اور انڈیا اپنی سرزمین پر سیریز ہارنا نہیں چاہے گا۔ فاتح نیوزی لینڈ ٹیم کے حوصلے بلند ہیں اور وہ سیریز میں ایک صفر سے آگے ہے۔