دو پراسرار جزیرے، جنگ اور معیشت کی تباہی: سعودی عرب نے ماضی کی تلخیوں کو بھلا کر مصر میں سرمایہ کاری کیوں کی؟
قاہرہ کے اپنے آخری دورے کے دو سال بعد سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان مشرق وسطیٰ میں بڑھتی ہوئی علاقائی کشیدگی اور مصر میں نئی سرمایہ کاری کی خبروں کے درمیان گذشتہ منگل کو قاہرہ پہنچے۔
یہاں ان کا پرتپاک استقبال کیا گیا اور مصری صدر عبدالفتاح السیسی اور محمد بن سلمان کے درمیان مصر سعودی سپریم کوآرڈینیشن کونسل کی تشکیل پر اتفاق ہوا اور دونوں ممالک کے درمیان باہمی سرمایہ کاری کے تحفظ سے متعلق ایک معاہدے پر دستخط بھی کیے گئے۔
دو برس قبل محمد بن سلمان کے دورے کو ’بے نتیجہ‘ قرار دیا گیا تھا تاہم اب ماہرین کے مطابق دونوں ممالک کے درمیان برف پگھلی اور یہ دورہ اس سے یکسر مختلف رہا ہے۔
مصر اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات میں حالیہ تاریخ میں اونچ نیچ ہوتی رہی ہے اور اس دوران سرکاری دورے بھی عارضی طور پر منسوخ کیے جاتے رہے ہیں حالانکہ دونوں ممالک کے حکام مسلسل اس بات کا اعادہ کرتے رہے ہیں کہ سعودی عرب اور مصر کے درمیان تعلقات کی بنیادیں مضبوط ہیں۔
پچھلی دہائی کے دوران دونوں فریقوں کے درمیان تعلقات کیسے استوار ہوئے ہیں؟
سنہ 2013 میں اخوان المسلمون کی حکومت کے خاتمے کے بعد سعودی عرب نے نئی مصری اتھارٹی کی حمایت کے لیے فراخدلی سے امداد فراہم کی تھی۔
اس وقت یہ امداد غیر مشروط تھی جیسا کہ 2013 میں قاہرہ کو پانچ ارب ڈالر کی امداد دی گئی تھی جس میں تیل اور گیس کی مصنوعات اور مرکزی بینک میں جمع کروائی گئی رقم اور نقد امداد شامل ہیں۔
مارچ 2015 میں یمن میں عسکریت پسند حوثیوں کے خلاف سعودی سربراہی اتحاد کی فوج کے ’آپریشن ڈیسائسو سٹارم‘ سے مصر کی دستبرداری کی وجہ سے دونوں حکومتوں کے درمیان اختلافات سامنے آئے تھے۔
آٹھ اپریل 2016 کو قاہرہ اور ریاض نے ایک سرحدی حد بندی کا معاہدہ طے کیا جس پر مصر میں قانونی تنازع کھڑا ہوا اور احتجاجی مظاہرے بھی ہوئے۔ اس معاہدے میں ’تیران اور صنافیر کے جزائر کی سعودی عرب کو منتقلی‘ کی شرط رکھی گئی تھی۔
تیران اور صنافیر دو جزیرے ہیں جو آبنائے تیران کے داخلی راستے پر واقع ہیں، جو خلیج عقبہ کو بحیرہ احمر سے الگ کرتے ہیں۔
یہ دونوں جزائر وہ چنگاری تھے جس نے 1967 میں ’عرب اسرائیل جنگ‘ کو بھڑکا دیا تھا جب مصر نے وہاں اپنی افواج کی تعیناتی اور آبنائے تیران کو بند کرنے کا اعلان کیا تھا۔
جنوری 2023 میں ایسا لگتا تھا کہ قاہرہ کی حمایت میں ریاض کی پالیسی تبدیل ہو گئی ہے۔ سعودی وزیر خزانہ محمد الجدعان کے سوئٹزرلینڈ میں ’ڈیووس‘ میں عالمی اقتصادی فورم میں شرکت کے دوران ایک بیان میں انھوں نے کہا کہ غیر مشروط سبسڈیز کو ختم کرنے کا وقت آ گیا ہے۔ اکثر ماہرین کے مطابق اس وقت سعودی عرب کا اشارہ سعودی عرب کی جانب تھا۔
اس بیان کے بعد سعودی اور مصری میڈیا میں دونوں ممالک کے خلاف دلائل کی جنگ شروع ہوگئی جو جلد ہی رک گئی۔ صدر سیسی نے تصدیق کی کہ دونوں ممالک کے درمیان کوئی تنازعہ نہیں ہے اور جو کچھ ہو رہا ہے وہ ایک ’عارضی جھگڑے‘ کے سوا کچھ نہیں ہے۔
دوسری طرف کچھ لوگوں نے دونوں ممالک کے درمیان ’پوشیدہ‘ تنازعہ کی وجہ مصر کی جانب سے تیران اور صنافیر جزائر سعودی عرب کے حوالے کرنے میں تاخیر کو قرار دیا۔ امریکی خبررسانی ویب سائٹ ایگزیوس کی ایک رپورٹ کے مطابق قاہرہ اس تاخیر کی وجہ ترسیل کے عمل کی تفصیلات اور طریقہ کار سے متعلق تکنیکی وجوہات کو قرار دیتا ہے۔
گذشتہ ستمبر میں مصری وزیر اعظم مصطفیٰ مدبولی نے سعودی دارالحکومت میں ہونے والی ایک میٹنگ میں سعودی ولی عہد کی ہدایت پر ملک کے مرکزی بینک میں سعودی ڈپازٹ کے علاوہ مصر میں پانچ ارب ڈالر کی سعودی سرمایہ کاری کرنے کا اعلان کیا اور اسے ’پہلے مرحلے‘ کے طور پر بیان کیا۔
انہوں نے واضح کیا کہ ان کی حکومت مصر میں سعودی سرمایہ کاروں کے 90 فیصد مسائل کو ختم کرنے میں کامیاب رہی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: تحریک انصاف کی سیاسی پیدائش احتجاج، دھرنے اور جلسوں کی شرط پر ہوئی تھی، عظمیٰ بخاری
’مشترکہ چیلنجز انھیں پہلے سے کہیں زیادہ قریب لائے ہیں‘
مصر کے سابق اسسٹنٹ وزیر برائے خارجہ امور سفیر فوزی العشماوی نے خطے میں ہونے والی پیش رفت کی روشنی میں مصر اور سعودی تعلقات کو ’عرب خطے کا توازن‘ قرار دیا۔
خطے میں جنگ کے حوالے سے مصری اور سعودی نقطہ نظر ایک دوسرے سے ملتے ہیں۔ غزہ میں جاری جنگ اور مصری سرحد سے ملحقہ غزہ کے بفر زون پر اسرائیل کے کنٹرول کے نتیجے میں مصر اور اسرائیل کے تعلقات میں تناؤ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے، جسے فلاڈیلفی کوریڈور کہا جاتا ہے۔
غزہ میں جنگ شروع ہونے کے بعد سعودی حکام نے اعلان کیا تھا کہ سعودی عرب فلسطینی ریاست کے قیام سے پہلے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم نہیں کرے گا، باوجود اس کے کہ دونوں فریقوں کے درمیان قربتیں بڑھنے کے اشارے سامنے آئے تھے۔
Uses in Urdu عربی کے ساتھ ایک انٹرویو میں، العشماوی نے ان مسائل کی فہرست پیش کی ہے جن پر مصری نظریات ایک دوسرے سے ملتے ہیں۔ ’جو غزہ میں جنگ بندی کے معاہدے کے لیے رابطے کیے جا رہے ہیں اس کے علاوہ لبنانی ریاست کو اقتدار اور خودمختاری کی واپسی، حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے میں ان کی دلچسپی، نیز سوڈان میں تنازع کا خاتمہ، شامل ہیں۔‘
العشماوی کے مطابق سعودی عرب کو خدشہ ہے کہ خطہ ایک جامع جنگ کی طرف پھسل جائے گا جس سے تیل کی سپلائی رک سکتی ہے اور اگر ’ایران اسرائیل تنازعہ‘ بڑھتا ہے تو آبنائے ہرمز میں شاید دشمنی ہو سکتی ہے۔
اقتصادی حوالے سے سابق سفیر نے توقع ظاہر کی کہ سعودی عرب نہیں چاہتا کہ مصر کے ساتھ اس کے تعلقات اس کے اماراتی ہم منصب سے کم مضبوط ہوں۔
العشماوی کا خیال ہے کہ سعودی عرب کی مصر کی مالی مدد کرنے میں دلچسپی کی وجہ یہ ہے کہ ریاض مصر کو ایک ’بحران‘ زدہ ملک نہیں بنانا چاہتا۔ ان کا کہنا ہے کہ ’سعودی عرب مصر میں اقتصادی بحران کا خطرہ مول نہیں لے سکتا، جس سے کشیدگی یا کسی بھی قسم کی کشیدگی پیدا ہو۔ ایسی صورتحال جو ہجرت یا تشدد کی لہروں کا باعث بن سکتی ہے جیسا کہ جنوری کے انقلاب میں ہوا تھا یا جو کچھ عرب ممالک جیسے لیبیا، عراق یا سوڈان میں ہوا تھا۔‘
سعودی سیاسی مصنف سلیمان العقیلی نے Uses in Urdu کو بتایا کہ 'ریاض اور قاہرہ اب مشترکہ مفادات اور چیلنجز کا اشتراک کرتے ہیں جو انھیں پہلے سے کہیں زیادہ قریب لاتے ہیں۔'
العقیلی نے تین خطرات کی نشاندہی کی ہے، جن میں سے پہلا 'بحیرہ احمر کی سلامتی کی خطرناک صورت حال' ہے، جس کی وجہ سے نہر سویز کی درآمدات آدھی رہ گئی ہیں اور سکیورٹی خطرات کے علاوہ بحیرہ احمر پر سعودی بندرگاہوں کی ترقی میں خلل ڈال رہی ہے۔
دوسرا مشترکہ خطرہ سوڈان میں خانہ جنگی ہے جس سے ان کی تزویراتی سلامتی کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔
العقیلی کے مطابق آخری خطرہ یہ ہے کہ دونوں ممالک قرن افریقہ میں ایتھوپیا کی نقل و حرکت کا خوف رکھتے ہیں، جو اسے 'خلیج عدن اور باب المندب میں ایک بڑا کھلاڑی بنا سکتا ہے اور اس کی سلامتی کے لیے خطرہ ہے۔ سعودی سمندری سرحدیں اور قاہرہ کی آبی سلامتی کو عدیس ابابا کی گرفت میں ڈال دیا۔
العقیلی نے Uses in Urdu کے ساتھ اپنے انٹرویو میں کہا کہ سابقہ خطرات کا مقابلہ کرنے کے لیے فریقین نے تین فوجی مشقوں میں حصہ لیا، اس کے علاوہ دیگر افواج کے ساتھ مشترکہ مشقیں کیں، جو علاقائی اور بین الاقوامی پیغامات کے بغیر نہیں تھیں۔
سرمایہ کار دونوں حکومتوں سے کیا توقع رکھتے ہیں؟
سعودی مصری بزنس کونسل کے سربراہ بندر الامیری نے مصر میں سعودی سرمایہ کاری کے تحفظ کے معاہدے پر دستخط کرنے کے بعد کہا کہ سعودی عرب اور مصر کے نجی شعبوں کے درمیان تعاون کے نتیجے میں مجموعی طور پر 15 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کے معاہدے ہوئے۔
سعودی میڈیا کے مطابق مصر قابل تجدید توانائی، صنعت، ریئल اسٹیٹ اور سیاحت کے شعبوں کے علاوہ ٹیکنالوجی کے شعبے میں سرمایہ کاری کر رہا ہے۔
سعودی عرب مصر کا دوسرا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان تجارت کا تخمینہ 2023 میں تقریباً 12.8 ارب ڈالر ہے۔
مصری سعودی بزنس کونسل کے رکن ڈاکٹر ولید جمال الدین نے Uses in Urdu سے فون پر بات کرتے ہوئے کہا کہ 'سعودی عرب مصر میں سب سے بڑا سرمایہ کار ہے لیکن مصر 2011 سے 2013 تک جن سیاسی حالات سے گزرا، اس کی وجہ سے کچھ سعودی سرمایہ کار خوفزدہ ہیں۔ اس لیے انھوں نے سرمایہ کاری کے تحفظ کے حوالے سے کچھ شرائط رکھی ہیں۔'
ایک ماہر اقتصادیات اور مالیات کے پروفیسر مدحت نافع کو توقع ہے کہ یہ معاہدہ مصر کو بین الاقوامی اداروں سے قرض لینے کا ایک بہتر اور زیادہ پائیدار طریقہ فراہم کرے گا۔
Uses in Urdu کے ساتھ ایک فون کال میں انھوں نے کہا کہ 'مصر میں سعودی سرمایہ کاری اسے چھ فیصد سے زیادہ کی شرح نمو حاصل کرنے کے قابل بنا سکتی ہے۔'
مدحت نافع کہتے ہیں کہ ’سعودی عرب ویژن 2030 کو حاصل کرنے کے لیے اپنی کاربن مصنوعات کی پیداوار میں سرمایہ کاری کے علاوہ اسے مختلف ممالک میں توسیع دی جا سکے۔‘
اعداد و شمار کے مطابق سعودی عرب میں انٹرٹینمنٹ کے شعبے میں سنہ 2021 میں 101 فیصد کی شرح سے ترقی ہوئی ہے جبکہ سنہ 2023 میں تیل مصنوعات کے علاوہ دیگر مصنوعات کا جی ڈی پی میں حصہ تقریباً 50 فیصد تھا اور توقع ہے کہ دہائی کے آخر تک یہ بڑھ کر 65 فیصد ہو جائے گا۔
نافع اس معاہدے کو دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کے ایک نئے دور کا آغاز نہیں مانتے حالانکہ یہ دونوں ملکوں کے درمیان اپنی نوعیت کا پہلا معاہدہ ہے اور دونوں پچھلی دہائیوں میں درجنوں ممالک کے ساتھ پہلے ہی اسی طرح کے معاہدے کر چکے ہیں۔
سرمایہ کاری کے تحفظ کے معاہدے منصفانہ سرمایہ کاری کی ضمانت دیتے ہیں۔ سرمایہ کاری میں توسیع اور اسے برقرار رکھنے کے علاوہ جنگ، تنازع، انقلاب اور ہنگامی صورتحال یا بدامنی کی صورت میں سرمایہ کاری کے تحفظ کی ضمانت دیتے ہیں۔
مدحت نافع کو توقع ہے کہ آنے والا دور مصر میں سیاحت، ریئل اسٹیٹ کی ترقی، توانائی، پیٹرو کیمیکل، جہاز رانی اور ان لوڈنگ کے شعبوں، لاجسٹکس اور زراعت کے شعبے میں سعودی سرمایہ کاری کا مرکز ہوں گے۔
کچھ فصلیں جو سعودی عرب کے اندر اگنا مشکل ہیں، وہ یہاں اگائی جا سکتی ہیں۔ افریقہ میں زراعت کے بجائے مصر کے ساتھ جغرافیائی قربت کی وجہ سے اس شعبے کو نسبتاً زیادہ ترجیح دی جا سکتی ہے۔
پاؤنڈ کی قدر میں کمی اور اپنی خوراک کا زیادہ تر حصہ درآمد کرنے والے ملک میں غیر ملکی ذخائر کی کمی کی وجہ سے مصر کا معاشی بحران گذشتہ دو سالوں میں مزید خراب ہوا ہے۔ یہاں افراطِ زر کی شرح 36 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔
گذشتہ دہائی میں بیرونی قرضوں میں تین گنا سے زیادہ اضافہ ہوا ہے، جس نے حکومت کو بین الاقوامی مالیاتی فنڈ سے معاہدے کے تحت اقتصادی اصلاحات کے پروگرام پر عمل درآمد کرنے پر مجبور کیا۔ آئی ایم ایف مصر کو آٹھ ارب ڈالر کا قرضہ دے رہا ہے۔