کیا یحییٰ سنوار کی زندگی کے آخری لمحات نے انھیں غزہ کا ‘ہیرو’ بنا دیا؟
اسرائیلی فوج کے ہاتھوں 17 اکتوبر کو حماس کے سربراہ یحیی سنوار کی ہلاکت پر غزہ میں دکھ و تکلیف ہے تو دوسری طرف اسرائیل میں جشن کا سا سماں نظر آتا ہے۔
سنوار کو اسرائیل پر 7 اکتوبر 2023 کے حملے کا منصوبہ ساز تصور کیا جاتا تھا اور اسرائیلی فوج نے حماس کی دیگر شخصیات کے ساتھ ان کا نام بھی اپنی انتہائی مطلوب افراد کی فہرست میں شامل کر رکھا تھا۔
گذشتہ جمعرات کو سنوار کی غیر تصدیق شدہ تصاویر سوشل میڈیا پر گردش کر رہی تھیں اور ان تصاویر میں ایک شخص کو شدید زخمی حالت میں زمین پر لیٹے ہوئے دیکھا جا سکتا تھا۔ اسرائیلی حکام کا کہنا تھا کہ وہ اس ہلاک ہونے والے شخص کی شناخت کی تصدیق کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
کچھ ہی گھنٹوں کے بعد اسرائیلی وزیرِ دفاع یوآف گیلنٹ اور وزیر اعظم بنیامن نتن یاہو نے ’سنوار کے خاتمے‘ کا اعلان کر دیا۔
بعد میں اسرائیلی فوج نے ڈورن کی مدد سے بنائے گئی ایک ویڈیو شیئر کی جس میں اس کے مطابق حماس کے سربراہ کی زندگی کے آخری لمحات دکھائے گئے تھے۔ اس ویڈیو میں ایک شخص کا چہرہ نقاب سے ڈھکا ہوا تھا اور وہ اپنے اطراف سے ڈرون کو ہٹانے کی کوشش کر رہے تھے۔
اسرائیلی فوج کے ترجمان ڈینیئل ہگاری نے بھی تصدیق کی کہ سنوار کو رفح شہر میں ہلاک کر دیا گیا ہے۔
حماس نے بھی سنوار کی موت کی تصدیق کر دی ہے۔ حماس کے سیاسی بیورو کے رُکن خلیل الحیا کا اپنی تقریر میں کہنا تھا کہ: ’سنوار کی تحریک فلسطینی مٹی پر فلسطینی ریاست کے قیام تک جاری رہے گی اور اس کا دارالحکومت یروشلم ہوگا۔ سنوار اور حماس کے دیگر رہنماؤں کا خون ہمیں روشنی دیتا رہے گا۔‘
انھوں نے یرغمال بنائے گئے اسرائیلیوں کا حوالہ دیتے ہوئے مزید کہا کہ ’قابضین کے یرغمالیوں کو اس وقت تک رہا نہیں کیا جائے گا جب تک غزہ پر جارحیت ختم نہیں ہوتی، اسرائیل کا مکمل انخلا نہیں ہوجاتا اور ہمارے قیدیوں کو رہا نہیں کر دیا جاتا۔‘
سنوار کی موت پر غزہ میں ردِ عمل
سنوار کی موت پر غزہ میں صدمے کی سی صورتحال نظر آتی ہے۔ امّ محمد کو شمالی غزہ میں اپنا گھر چھوڑنا پڑا تھا اور اب وہ الاقصیٰ ہسپتال میں رہتی ہیں۔
انھوں نے Uses in Urdu کو بتایا کہ ’کچھ دنوں پہلے میں نے خیموں میں لگی آگ کو دیکھا تھا اور اس کی تکلیف اپنے دل میں محسوس کی تھی اور آج پھر ہم یحییٰ سنوار کی موت کی خبر کے سبب اس تکلیف سے گزر رہے ہیں۔‘
غزہ کے ایک اور رہائشی کہتے ہیں کہ: ’سنوار غزہ میں تنازع شروع ہونے کے ایک برس بعد مارے گئے ہیں۔ ان کی شخصیت کے حوالے سے لوگوں کی رائے مختلف ہو سکتی ہے لیکن یہ تسلیم کرنا ضروری ہے کہ جس وقت انھیں مارا گیا وہ پوری طرح مسلح تھے اور انھوں نے اسرائیلی فورسز سے مقابلہ بھی کیا۔‘
’وہ کسی انٹیلی جنس آپریشن میں نہیں مارے گئے جیسا کہ اسرائیلی فوج دعویٰ کر رہی ہے۔‘
عمر نامی غزہ کے ایک اور رہائشی کہتے ہیں کہ ’ہر اس فلسطینی کی طرح جس نے اپنی زندگی قربان کی ہے غزہ یا غربِ اردن میں، ہم خدا سے یہی دعا کرتے ہیں کہ یہ جنگ اب ختم ہو جائے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ہم نارمل زندگی کی طرف لوٹنا چاہتے ہیں تاکہ ہمیں کچھ سُکھ مل سکے۔ ہم اس جنگ سے اب تھک چکے ہیں۔‘
انس الجمال نامی سماجی و سیاسی کارکن سنوار کی موت پر لکھتے ہیں کہ ’یہ وہ اختتام نہیں ہے جو نتن یاہو چاہتے تھے۔ نتن یاہو نہیں چاہتے تھے کہ سنوار کسی ہیرو کی طرح نظر آئیں، اپنا عسکری لباس پہنے ہوئے اور رفح میں اگلے مورچوں پر قابض فوجیوں کے ساتھ لڑتے ہوئے۔‘
’نتن یاہو نہیں چاہتے تھے کہ سنوار کسی جھڑپ میں اچانک مارے جائیں۔ وہ چاہتے تھے کہ سنوار کو مارا جائے اور تصویر میں وہ خود سنوار کو مارنے کا حکم دیتے ہوئے نظر آئیں۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’نتن یاہو ان فوجیوں کا احتساب کریں گے جنھوں نے سنوار کی تصویر لیک کی اور اب یہ تصویر فلسطینی افراد کے لیے فخر کا ذریعہ بنے گی۔‘
اس حوالے سے بیداع الاولاکی سوشل میڈیا پر لکھتے ہیں کہ: ’وہ جنگ کے دوران رفح میں تُکّے میں شہید ہوئے، نہ کہ کسی آپریشن میں۔ وہ لڑے اور فرار نہیں ہوئے، ان کے گردن میں کوفیہ لپٹا ہوا تھا اور ہاتھ میں بارود تھا۔‘
’انھوں نے ماتھے اور سر پر گولیاں کھائیں، نہ کہ پیٹھ پر یا ہاتھوں پر۔ وہ آگے بڑھتے ہوئے شہید ہوئے۔‘
یہ بھی پڑھیں: علی امین گنڈا پور: آخر کہاں گئے؟ وزیراعلیٰ کے پی نے خود سچائی بیان کردی
’سب کے لیے تحفہ‘
دوسری جانب سوشل میڈیا پر اسرائیل سے شیئر کی گئی اور مقامی میڈیا پر نشر کی گئی ویڈیوز میں اسرائیل کے شہر کریات بیالیک کی سڑکوں پر لوگوں کو یحییٰ سنوار کی موت کا جشن مناتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔
اسرائیل میں جشن منانے والے کچھ افراد نے اپنے گھروں کی بالکونی میں لاؤڈ سپیکرز پر اسرائیل کا قومی ترانہ لگا رکھا تھا اور کچھ لوگ اپنی کاروں کا ہارن بجا کر سنوار کی موت کی خوشی منا رہے تھے۔
ایک اور ویڈیو میں اسرائیلی فوج کے اہلکاروں کو سڑکوں پر موجود ڈرائیورز کو مٹھائی کھلاتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔
اسرائیلی علاقے اشدود کے ایک رہائشی علاقے میں لوگوں نے حماس کے سیاسی بیورو کے سربراہ کی موت پر تالیاں بجائیں اور سیٹیاں بجاتے ہوئے جشن منایا۔
شمالی اسرائیل میں گلیل کے ساحل کے قریب سڑکیں بند تھیں کیونکہ وہاں سینکڑوں لوگ یحییٰ سنوار کی موت کی خبر پر خوشی منانے کے لیے ناچ رہے تھے اور اسرائیلی جھنڈے اٹھائے ہوئے تھے۔
وہاں موجود ایک شخص نے Uses in Urdu کو بتایا کہ ’یحییٰ سنوار ایک بُرے آدمی تھے اور ان کا وقت ختم ہو چکا تھا۔ ان کی موت سب کے لیے ایک تحفہ ہے چاہے وہ فلسطینی ہوں یا اسرائیلی۔‘
حماس کی قید میں موجود یرغمالیوں کے خاندانوں نے یحییٰ سنوار کی موت کا خیرمقدم کیا، مگر ان کا کہنا تھا کہ یرغمال بنائے گئے اہلخانہ کو واپس لانے کے لیے کوششوں کو تیز کرنا ضروری ہے۔
اینیو زنگواکر نامی شخص نے اسرائیل کے مقامی میڈیا کو بتایا کہ ’ہم نے قاتل سنوار سے حساب برابر کر لیا ہے مگر ہمیں مکمل فتح تب تک نہیں ملے گی جب تک ہم اپنے پیاروں کی زندگیاں نہیں بچاتے اور انھیں واپس نہیں لے آتے۔‘
یہ بھی پڑھیں: پاکستان سے مزدوری کیلئے تھائی لینڈ جانے والا شہری اغواء
’ان کی جگہ کوئی اور لے لے گا‘
مقبوضہ غرب اردن کے شہر رام اللہ میں مراد عمر نامی شخص نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ: ’سنوار کی ہلاکت صورتحال کو مزید پیچیدہ بنا دے گی۔ اس کے بعد غزہ میں لوگوں کے پاس زیادہ آپشن نہیں ہوں گے اور جنگ مزید طویل ہو سکتی ہے۔‘
’امریکی اور اسرائیلی کہتے ہیں کہ سنوار اور حماس کے بغیر غزہ میں ایک نئے دن کا آغاز ہوا ہے، لیکن یہ صرف سیاسی نعرے ہیں۔ جنگ جاری رہے گی اور ایسا نہیں لگتا کہ یہ کبھی ختم ہوگی۔‘
حبرون سے کچھ میل فاصلے پر مقیم اعلیٰ الہشلامون کہتے ہیں کہ: ’میری رائے میں جب بھی کوئی مرتا ہے تو اس کی جگہ کوئی اور لے لیتا ہے جو پچھلے شخص سے زیادہ ضدی ہوتا ہے۔‘
’سنوار ایک ضدی شخص تھے اور ہمیں امید ہے کہ ان کی جگہ بھی کوئی ان کے جیسا یا ان سے زیادہ ضدی شخص لے گا۔‘
یہ بھی پڑھیں: پشاور سی ایم ہاؤس سے علی امین گنڈا پور کی قیمتی چیزیں غائب ہو گئیں
’لاشیں گرتی ہیں، نظریات نہیں‘
اردن کی سرحد اسرائیل سے ملتی ہے اور اس کے دارالحکومت عمان میں ہزاروں افراد یحییٰ سنوار کی موت کی مذمت کرنے اور حماس سے یکجہتی ظاہر کرنے کے لیے سڑکوں پر نکل آئے تھے۔
ایک احتجاج کرنے والے شخص نے Uses in Urdu کو بتایا کہ ’سنوار اور مزاحمت نظریات کا نام ہے اور ایک نظریہ کبھی مرتا نہیں۔ لاشیں گرتی ہیں، نظریات نہیں مٹتے۔‘
ان کے مطابق سنوار کی موت سے ’صورتحال مزید خراب‘ ہی ہوگی۔
جمعے کی صبح اسرائیل کے مقامی میڈیا کے مطابق اسرائیلی فوج نے ایک بیان میں کہا تھا کہ اردن کی طرف سے اسرائیل میں دراندازی کی کوشش کی گئی تھی اور اس واقعے میں دو فوجی اہلکار بھی زخمی ہوئے ہیں۔
اردن کی فوج نے اس معاملے پر جاری ایک بیان میں کہا کہ: ’میڈیا میں چلنے والے اطلاعات میں کوئی صداقت نہیں جن میں کہا گیا ہے کہ اردن کی فوج نے اردن کی مغربی سرحد عبور کی۔‘
یہ بھی پڑھیں: پی ٹی آئی رہنما اعظم سواتی 7 روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے
عراق اور مصر میں سنوار کی موت پر کیا ردِ عمل آیا؟
عراق میں اسماعیل ہنیہ کی موت پر بھی احتجاجی مظاہرے ہوئے تھے لیکن سنوار کی موت کے بعد جو مظاہرے یہاں ہوئے وہ ماضی کے مقابلے میں کافی بڑے تھے۔
عراقی رُکنِ پارلیمان رئیس المالکی نے کہا کہ: ’سنوار کی موت کا منظر اُتنا ہی تکلیف دہ تھا جتنی لاکھوں فلسطینیوں کی اموات اور ہزاروں بھوگے افراد کی نقل مکانی۔‘
عراقی صحافی و بلاگر احمد الشیخ ماجد نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر ایک پوسٹ میں لکھا کہ ’سنوار نے وہ زندگی گزاری ہے جس کا وجود صرف شاعری میں ہی نظر آتا ہے۔ عراق میں موجود ہم سب جانتے ہیں کہ اس سب کی وجہ کیا ہے اور ہم بلیک میلرز اور شیروں میں فرق بھی جانتے ہیں۔‘
مصر میں واقع جامع الاظہر نے سنوار کا نام لیے بغیر ان کی موت کو ’فلسطینی مزاحمت میں ہیرو کی شہادت‘ قرار دیا۔
ایکس پر جاری ایک بیان میں جامع الاظہر کا کہنا تھا کہ نوجوانوں کے ذہنوں میں ’فلسطینی مزاحمت کا نشان‘ سمجھے جانے والے افراد کی ساکھ کو مسخ کرنے کی کوشش کو ناکام بنانا ہوگا۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ اس کو ’دہشتگردی‘ نہ قرار دیا جائے بلکہ ’مزاحمت، اپنی سرزمین کا دفاع کرنا اور مرجانا اور ایک ایسے رُتبہ ہے جس کی برابری ممکن نہیں۔‘
مصری سیاستدان اور سابق صدارتی امیدوار حمدین صباحی نے سنوار کی موت کے بعد ایک تقریب میں شرکت کی اور کہا کہ: ’آپ ہیرو کی طرح جئے اور شہادت کے رُتبے پر فائز ہو گئے۔ آپ غزہ کے دیگر لوگوں کی طرح کسی ہیرو کی طرح شہید ہوئے۔ آپ کسی ٹنل میں نہیں چھپے، قیدیوں کے پاس پناہ نہیں لی بلکہ جب آپ کا دشمن سے سامنا ہوا تو آپ اپنے ساتھیوں کے ساتھ ان کا مقابلہ کر رہے تھے۔‘
مصری اخبار الاحرام الشروق کے سابق ایڈیٹر اِن چیف عبدالعظیم حماد نے حماس کے سیاسی بیورو کے سربراہ کی موت پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے لکھا کہ ’ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اسرائیل مزاحمت کے تمام مراکز کو ختم کرنا چاہتے ہیں تاکہ خطے میں اسرائیل کی بالادستی کی راہ ہموار ہوسکے۔‘
مصری میڈیا کی اور شخصیت محمود سعد نے سنوار کی موت پر فلسطینی شاعر کی شاعری ایکس پر شیئر کی جس کے اردو میں لفظی معنی یہ ہیں: ’اگر میں مر جاؤں تو میری ماں، تم رونا مت۔ میں مروں گا تاکہ میرا ملک زندہ رہ سکے۔‘
احمد موسیٰ نامی ایک اور مصری شخص نے سوشل میڈیا پر اسرائیلی وزیرِ اعظم کو ’جنگی مجرم‘ قرار دیا۔
سنوار، چی گویرا اور صدام حسین
کچھ بلاگرز اور سیاسی کارکنان کا کہنا ہے کہ اسرائیل کی جانب سے سنوار کی لاش کی تصاویر نے چی گویرا کی موت کی بعد کی تصاویر کو بھی پیچھے چھوڑ دیا۔
چی گویرا ارجنٹینا میں پیدا ہونے والے انقلابی تھے جو گذشتہ صدی کے دوسرے حصے میں ’دنیا بھر میں انقلابی تحریکوں کی علامت‘ بن کر سامنے آئے۔
سنہ 1967 میں انھیں بولیویا میں مارا گیا اور ان کی لاش کی تصویر دُنیا بھر میں پھیل گئی تھی۔
دوسری جانب کچھ لوگوں نے حماس کے سیاسی بیورو کے سربراہ کی موت کا موازنہ سابق عراقی آمر صدام حسین کی موت سے کرنے کی کوشش کی۔ انھوں نے کہا کہ صدام حسین کو امریکی فوجیوں نے ایک ’بِل کے اندر‘ پکڑا تھا، جبکہ سنوار ’ہاتھ میں اسلحہ پکڑے ہوئے، دشمن کا سامنا کرتے ہوئے مارے گئے۔‘
لیکن بلاگرز کی ایک تعداد ایسی بھی تھی جنھوں نے سنوار پر تنقید کی۔
انھوں نے 7 اکتوبر 2023 کے حملے کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا کہ حماس کے سربراہ نے ’غزہ اور اس کے لوگوں کو مصیبت میں ڈالا۔‘