یہ تو نہیں ہوا، مگر جو ریپ ہو رہے ہیں، ان کا کیا؟
مجھے یہ معلوم نہیں کہ لاہور کے کسی تعلیمی ادارے میں ایک ریپ ہوا یا یہ واقعہ سوشل میڈیا کے کچھ اکاؤنٹس میں ہی ہوا۔ بظاہر، اب تک کسی بھی فرد، متعلقہ تحقیقاتی اداروں یا سوشل میڈیا ہینڈلرز کو کسی بھی قسم کا کوئی ثبوت نہیں ملا، اور نہ ہی لاہور ہائیکورٹ میں اس مبینہ ریپ کی چھان بین کی درخواست دائر کرنے والے مدعی نے کوئی ثبوت ملنے کا دعویٰ کیا۔
مگر نئی پود کا غصہ پھر بھی ٹھنڈا نہیں ہو پا رہا۔ اسے پختہ یقین ہے کہ اگر کسی کے ہاتھ میں کوئی ثبوت نہیں تو پھر اس بات کا امکان ہے کہ اسے بہت ہی مہارت سے چھپایا جا رہا ہے۔
یہ پریقین شک محض نئی پود کی میراث نہیں بلکہ یہ ترکہ ان بڈھوں سے ورثے میں ملا ہے جنھوں نے دنیا کو اس حد تک پہنچا دیا ہے کہ سیاہ و سفید کے سوا ہر رنگ دکھائی دے رہا ہے۔
مثال کے طور پر، جب امریکی و برطانوی دعووں کے برعکس کسی بھی بین الاقوامی معائنہ کار کو عراق میں وسیع تر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں یا دہشت گردوں کو ان ہتھیاروں کی مبینہ فراہمی کا کمزور سا ثبوت بھی نہیں ملا، تو امریکی وزیر دفاع ڈونلڈ رمزفیلڈ نے چھان بین کے نتائج کو تسلیم کرنے کے بجائے یہ فلسفہ پیش کیا۔
’میں ان رپورٹوں سے ہمیشہ لطف اندوز ہوتا ہوں جن میں کہا گیا ہو کہ جو آپ سوچ رہے ہیں ویسا کچھ نہیں، حالانکہ کچھ باتوں کے بارے میں ہم سب جانتے ہیں کہ یہ ہمیں معلوم ہیں۔ کچھ باتوں کے بارے میں ہمیں یہ پتہ ہے کہ ہم نہیں جانتے، مگر کچھ باتیں ایسی بھی ہیں جن کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم کہ ہم ان سے لاعلم ہیں۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ جن باتوں سے ہم لاعلم ہیں ان کا وجود ہی نہیں۔‘
بہرحال، سب قصور ان بچے بچیوں کا بھی نہیں جو رمزفیلڈ کی طرح عدم وجود کو وجود ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ شاید تعلیمی اداروں کے اندر اور باہر انہیں بے یقینی کے بادلوں تلے اتنی سماجی و سیاسی گھٹن محسوس ہوتی ہو کہ اندر ابلتے لاوے کو باہر آنے کے لیے کوئی بھی بہانہ غنیمت ہو۔
اب بوئے گل نہ بادِ صبا مانگتے ہیں لوگ
وہ حبس ہے کہ لو کی دعا مانگتے ہیں لوگ
(جوش صاحب)
آخر یہ نوبت کیونکر آئی کہ اب سچائی کو بھی کوئی فیس ویلیو پر قبول کرنے کو آمادہ نہیں۔ اس کا ایک ذمہ دار شاید وہ میڈیا ہے جسے آدھے سچ یا من مرضی سچ کی پیداواری فیکٹری میں اسٹیبلشمنٹ نے خاصی حد تک کامیابی سے جھونک دیا ہے۔
وہ دن ہوا ہوئے جب تفتیشی صحافت کی حوصلہ افزائی اور قدر ہوتی تھی۔ اب تو ’بلیک میل ہو جاؤ یا بلیک میل کر لو‘ کا چلن ہے۔ کڑوی سچائی کے پیچھے نامعلوم افراد اور مذہبی و سیاسی گماشتے چھوڑ دیے گئے ہیں۔ عوام کے براہ راست بنیادی مفادات و سلامتی سے متعلق اطلاعات اور اندر خانے گھٹالوں تک رسائی علاقہِ ممنوعہ قرار پا چکی ہے۔ ہر محکمے، میڈیا ہاؤس اور سوچنے والے دماغوں نے اپنے خرچے پر سیلف سینسرشپ مشینیں نصب کر لی ہیں۔
اس سے اور تو کچھ نہیں ہوا، سچ کے پیاسے عام آدمی کے انفرادی و اجتماعی یقین نے خود کشی کر لی۔ اب اس کے کندھے پر اگر کوئی مہربان ہاتھ بھی محسوس ہو تو وہ مطمئن ہونے کے بجائے یہ سوچ کے لرز جاتا ہے کہ جانے اس مہربانی کے پیچھے کون کون سی برائی کھڑی ہے۔ نوبت یہ ہے کہ سایہ سائے سے ڈر رہا ہے۔
ایسے میں کون سا سچ اور کیا جھوٹ؟ سب گڈمڈ ہے مگر یہ نشہ آور حلیم تیار کرنے والوں کو بھی تو مطلوبہ سکون اور نتائج حاصل نہیں ہو پا رہے بلکہ وہ تو خود بے یقینی کی دلدل میں اندھا دھند ہاتھ پاؤں چلا کر خود کو اور دھنساتے جا رہے ہیں۔
اگر یہ ثابت بھی ہو چکا ہے کہ جس مبینہ ریپ نے پنجاب کے شہروں میں ہنگامہ مچایا وہ محض سوشل میڈیا کی شرارت ہے، تب بھی اس شرارت کے نقصانات اس سے کہیں زیادہ ہیں جتنے بتائے جا رہے ہیں۔
پہلا نقصان تو یہ ہے کہ جو بزرگ ویسے بھی لڑکیوں کو سکول سے آگے کی تعلیم دینے کے خلاف ہیں، ایسی لاکھوں بچیوں کا مستقبل مہربند کرنے کے لیے ان واقعات کی شکل میں ان بزرگوں اور سرپرستوں کے ہاتھ میں ایک تازہ ہتھیار آ گیا۔
تنگ نظر مذہبی گروہ جو سرے سے ہی بچیوں کی تعلیم کے دشمن ہیں وہ اس وقت ایک ٹانگ پر ناچ رہے ہوں گے۔
جنسی ہراسانی کے خلاف اور خواتین اور بچوں کے جسمانی و ذہنی تحفظ کے لیے قوانین کی مسلسل سختی کے باوجود گذشتہ برس اس ملک میں ریپ کے لگ بھگ گیارہ ہزار واقعات ریکارڈ پر ہیں۔ جو ریکارڈ پر نہیں لائے جا سکے وہ الگ ہیں۔
سب سے زیادہ وارداتیں وسطی پنجاب میں رجسٹر ہوئیں۔ سسٹین ایبل سوشل ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن (ایس ایس ڈی او) کے مطابق سنہ 2022 کے مقابلے میں 2023 میں ریپ کے واقعات میں 16 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا۔ موجودہ سال کے پہلے چھ ماہ میں اس شرح میں کوئی کمی ریکارڈ نہیں ہوئی۔
ریپ کے بہت سے ملزم پکڑے جاتے ہیں۔ ان پر مقدمے بھی چلتے ہیں مگر ڈیڑھ سے دو فیصد مجرموں کو ہی سزا سنائی جاتی ہے اور ان میں سے اکثریت سزا مکمل ہونے سے پہلے مختلف قانونی کمزوریوں کے سبب چھوٹ جاتی ہے۔ سماج میں ان کی نقل و حرکت کی نگرانی کے بجائے انھیں پھر سے ایک نارمل انسان کا درجہ مل جاتا ہے ۔
ایسے میں اگر کوئی افواہی ریپ حقیقت سمجھ لیا جائے تو حیرت کیوں؟
آج ہی میں نے فیس بک پر ایک خاتون (نائلہ رفیق) کے تاثرات پڑھے۔ آپ لکھتی ہیں کہ ’ہم پوسٹ ٹرتھ کی دنیا میں جی رہے ہیں۔ ہمارے بچوں کے لیے انفارمیشن سستی اور سچ مہنگا کر دیا گیا۔ تنقیدی سوچ کی تربیت حرام قرار دے دی گئی ہے۔ میڈیا لٹریسی نام کا کوئی مضمون تعلیمی نصاب کا حصہ نہیں چنانچہ ہمارے بچے بے ہنگم اطلاعاتی سیلاب میں غوطے کھا رہے ہیں۔
’یہ اپنے حواسوں میں آنے، جاگنے اور اپنے بچے کو اس جنگ میں بقا کے اوزار فراہم کرنے کا وقت ہے۔ نہ کہ خود پانی کے بہاؤ میں بہہ جائیں۔‘