یحییٰ سنوار کے آخری لمحات: حماس کے سربراہ کا اسرائیلی ڈرون پر چھڑی پھینکنے کا واقعہ
اسرائیلی ڈرون کی کیمرے کی فوٹیج میں دکھایا گیا ہے کہ یہ غزہ میں مصر کی سرحد کے قریب، رفح کے علاقے میں ایک نقصان شدہ عمارت کے قریب گزر رہا ہے، جہاں ایک نقاب پوش عسکریت پسند جنگی لباس میں دیکھا جا رہا ہے جو عمارت کی اوپری منزل میں صوفے پر بیٹھا ہوا ہے۔
ڈرون عمارت کی کھڑکی سے اندر داخل ہوتا ہے۔
نزدیک جانے پر یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ صوفے پر بیٹھا ہوا شخص دکھائی دیتا ہے کہ وہ زخمی ہے، مگر اس کے باوجود وہ حرکت کرتا ہے اور ڈرون پر ایک چھڑی جیسی چیز پھینکتا ہے جس کی وجہ سے ڈرون لڑکھڑاتا ہے۔
اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ انہوں نے رفح میں فرار کی کوشش کرنے والوں پر فائرنگ اور ٹینک سے گولہ باری کی، جس کے نتیجے میں صوفے پر بیٹھا عسکریت پسند بھی ہلاک ہوگیا۔
اس وقت تک اسرائیلی فوجیوں کو اس جھڑپ میں کوئی عجیب بات محسوس نہیں ہوئی۔
تاہم، اگلے دن یعنی جمعرات کی صبح جب فوجی دوبارہ اس جگہ پر گئے اور لاشوں کا معائنہ کر رہے تھے تو ان میں سے ایک شخص حماس کے سربراہ سے بہت زیادہ مشابہہ تھا۔
اس لاش کو ممکنہ طور پر بارودی مواد کی موجودگی کی وجہ سے اس مقام سے ہٹایا نہیں گیا، تاہم ان کی ایک انگلی کاٹ کر اسرائیل بھیجی گئی تاکہ ڈی این اے کے ذریعے تجزیہ کیا جا سکے۔
جمعرات کے روز یہ تصدیق ہوگئی کہ یہ لاش حماس کے سربراہ یحییٰ سنوار کی ہے، اور حماس نے بھی ان کی ہلاکت کی تصدیق کی ہے۔
اسرائیل کے پاس ان کا ڈینٹل ریکارڈ اور ڈی این اے کے نمونے تھے جس کی بدولت انہوں نے سنوار کی میت کی شناخت کی۔
بعد میں اسی دن جب مذکورہ مقام کو محفوظ قرار دیا گیا تو لاش اسرائیل منتقل کر دی گئی۔
نیویارک ٹائمز نے اسرائیل کے نیشنل فرانزک انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر اور سنوار کے پوسٹ مارٹم کی نگرانی کرنے والے ڈاکٹر چن کوگل کے حوالے سے لکھا ہے کہ ’حماس کے رہنما یحییٰ سنوار کی ہلاکت سر میں گولی لگنے سے ہوئی تھی‘۔
لیکن حماس کے دیگر رہنماؤں کے برعکس جنہیں اسرائیل نشانہ بناتا رہا ہے، یحییٰ سنوار کی ہلاکت ایک باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت کی گئی ٹارگٹڈ آپریشن یا ایلیٹ کمانڈوز کی طرف سے کی گئی فوجی کارروائی نہیں تھی بلکہ یہ اس علاقے میں جاری معمول کی ایک فوجی کارروائی تھی۔
اسرائیلی فوج کے ترجمان ڈینیئل ہیگری کا کہنا ہے کہ ’فوجی اہلکاروں کو حماس کے رہنما کی موجودگی کا علم نہیں تھا۔‘
Uses in Urdu نے علاقے کی سیٹیلایٹ فوٹیج سے تصدیق کی ہے کہ اسرائیلی فوج نے یہاں حفاظتی دیوار بھی بنا رکھی ہے جو یہ ظاہر کرتی ہے کہ وہ اس علاقے میں بڑی تعداد میں موجود ہیں۔
جمعہ کے روز اسرائیلی افواج نے اس حملے کے مقام کی مزید تصاویر جاری کی ہیں جس میں اس جگہ سے ملنے والے اسلحہ اور گولہ بارود کو بھی دیکھا جا سکتا ہے۔
اسرائیلی فوج سات اکتوبر کے حملوں کے منصوبہ ساز کو ایک سال سے تلاش کر رہی تھی جو غزہ میں روپوش ہو چکے تھے۔
61 سالہ یحییٰ سنوار کے بارے میں اسرائیلی کا دعویٰ ہے کہ انھوں نے زیادہ تر وقت غزہ کی پٹی میں موجود خفیہ سرنگوں میں گزارا۔ اس دوران ان کے ساتھ ان کے محافظ اور اسرائیلی یرغمالی بھی تھے جنھیں مبینہ طور پر انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کیا گیا۔
اسرائیلی حکام کا دعویٰ ہے کہ یحییٰ کی تلاش اس وقت اپنے انجام کو پہنچی جب جنوبی غزہ میں ان کا سامنا اسرائیلی فوج سے ہوا اور وہ بھی ان حالات میں کہ ان کے ساتھ چند ہی محافظ تھے اور وہاں کوئی یرغمالی بھی نہیں تھا۔
اسرائیلی فوج کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا کہ اس کی ایک یونٹ بدھ کے روز رفح کے علاقے تل السلطان میں گشت کر رہی تھی کہ انھیں تین عسکریت پسند دکھائی دیے اور اسرائیلی فوج نے جھڑپ میں انھیں مار دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ فوجیوں نے تین افراد کو مکانات کے درمیان بھاگتے ہوئے دیکھا۔ ان سے مقابلہ کیا گیا اور پھر وہ تینوں الگ ہو گئے۔
ان کے مطابق سنوار کے نام سے شناخت ہونے والے شخص کو اس وقت مارا گیا جب وہ تنہا ایک عمارت میں داخل ہوئے جہاں انھیں ایک ڈرون کی مدد سے تلاش کرنے کے بعد ہلاک کر دیا گیا۔
اسرائیلی فوج کا دعویٰ ہے کہ سنوار کسی بھی یرغمالی کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال نہیں کر رہے تھے جس کی وجہ شاید یہ تھی کہ وہ نظروں میں آئے بغیر وہاں سے نکلنا چاہتے تھے یا ان کے زیادہ تر محافظ مارے جا چکے تھے۔
اسرائیل کے وزیر دفاع یواف گیلنٹ کا کہنا تھا کہ ’سنوار کی موت ایک ایسے فرد کے طور پر ہوئی جو شکست خوردہ، سزا یافتہ اور مفرور تھا۔‘
’وہ ایک کمانڈر کے طور پر نہیں مارے گئے بلکہ ایک ایسے شخص کے طور پر مرے جسے صرف اپنی پرواہ تھی۔ یہ ہمارے تمام دشمنوں کے لیے ایک واضح پیغام ہے۔‘
ان کے مطابق سنوار کے پاس سے ایک بندوق اور 40 ہزار شیکال کی رقم بھی ملی ہے۔
سنوار کی موت کی تصدیق
اسرائیل نے جمعرات کی دوپہر پہلے یہ اعلان کیا کہ وہ یحییٰ سنوار کی ممکنہ ہلاکت کی تصدیق کر رہا ہے۔
اس اعلان کے چند منٹوں بعد ہی سوشل میڈیا پر ایسی تصاویر شیئر کی جانے لگیں جن میں ایک شخص کی لاش دکھائی دی جس کے سر پر کافی بڑا زخم ہے اور اس کی شکل حماس کے رہنما سے ملتی جلتی تھی۔
تاہم حکام کا کہنا تھا کہ اس وقت تک مارے جانے والے تینوں افراد کی شناخت کی تصدیق نہیں کی جا سکتی۔
اس کے کچھ دیر بعد ہی اسرائیلی ذرائع نے Uses in Urdu کو بتایا کہ وہ پُراعتماد ہیں کہ انھوں نے سنوار کو مار ڈالا ہے۔ تاہم انھوں نے کہا کہ موت کی تصدیق سے پہلے کچھ ضروری تجزیے کیے جا رہے ہیں۔
ان تجزیوں میں زیادہ وقت نہیں لگا اور جمعرات کی شام اسرائیل نے اعلان کر دیا کہ سنوار کو ہلاک کر دیا گیا ہے۔
اسرائیلی وزیر اعظم نے کہا کہ ’برائی کو ختم کر دیا گیا ہے‘۔ تاہم انھوں نے خبردار کیا کہ غزہ میں جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: کراچی بورڈ کا 12 ویں جماعت کے آرٹس اور کامرس کے نتائج کا اعلان
پھندا کسنے کی تیاری
اگرچہ یحییٰ سنوار کو ہدف بنا کر کی جانے والی کسی کارروائی کے دوران ہلاک نہیں کیا گیا تھا لیکن اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ وہ کئی ہفتوں سے ان علاقوں میں کام کر رہی تھی جہاں ان کی موجودگی کے اشارے ملے تھے۔
مختصر یہ کہ اسرائیلی افواج نے سنوار کو جنوبی شہر رفح تک محدود کر دیا تھا اور وہ آہستہ آہستہ انھیں پکڑنے کے لیے آگے بڑھ رہے تھے۔
سنوار ایک سال سے زیادہ عرصے سے روپوش تھے۔ حماس کے دیگر رہنماؤں جیسے محمد ضیف اور اسماعیل ہنیہ کی ہلاکت اور سات اکتوبر کے حملوں کے لیے استعمال کیے جانے والے انفراسٹرکچر کی تباہی کے بعد انھوں نے بلاشبہ محسوس کیا تھا کہ اسرائیلی دباؤ میں اضافہ ہو رہا ہے۔
ایک بیان میں اسرائیلی فوج نے کہا کہ حالیہ ہفتوں میں جنوب میں اس کی کارروائیوں نے یحییٰ سنوار کی آپریشنل نقل و حرکت کو محدود کر دیا اور فوج کی جانب سے ان کا تعاقب کیا جانا ان کی ہلاکت پر منتج ہوا۔
’بڑی کامیابی لیکن یہ جنگ کا خاتمہ نہیں‘
سنوار کی ہلاک اسرائیل کے لیے ایک بڑا ہدف تھا جن کی موت سات اکتوبر کے حملوں کے بعد طے تھی۔ لیکن ان کی موت کے بعد بھی غزہ میں جنگ ختم نہیں ہوئی۔
نیتن یاہو کا کہنا تھا ’جنگ جاری رہے گی، کم از کم ان 101 یرغمالیوں کو بچانے کے لیے جو اب بھی حماس کے قبضے میں ہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ ’میں یرغمالیوں کے خاندانوں سے کہہ رہا ہوں یہ جنگ میں ایک اہم لمحہ ہے۔ ہم اس وقت تک پوری قوت سے کام جاری رکھیں گے جب تک آپ کے اور ہمارے تمام پیارے، گھر نہیں آ جاتے۔‘
اسرائیل میں یرغمالیوں کے اہل خانہ کا کہنا ہے کہ انھیں امید ہے کہ اب جنگ بندی ہو جائے گی جس سے یرغمالیوں کو وطن واپس لایا جا سکے گا۔