فتح اللہ گولن کی وفات: ترکی کا طاقتور شخصیت جس پر فوج کو صدر اردوغان کے خلاف بغاوت کیلئے اکسانے کا الزام عائد کیا گیا
ترک اسلامی مبلغ فتح اللہ گولن، جن پر ترکی میں 2016 میں فوج کو بغاوت پر اکسانے کا الزام تھا، 83 سال کی عمر میں امریکہ میں وفات پا گئے ہیں۔
ترک میڈیا اور گولن سے قریب سمجھے جانے والے حلقوں کے مطابق، گولن امریکی ریاست پنسلوانیا کے ایک ہسپتال میں داخل تھے۔ وہ 1999 سے امریکہ میں خود ساختہ جلاوطنی کی زندگی گزار رہے تھے۔
گولن تحریک کے رہنما فتح اللہ گولن کو اکثر ترکی کا دوسرا سب سے طاقتور شخص سمجھا جاتا تھا۔ ان کے پیروکار ترکی اور دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ہیں۔
ترک صدر رجب طیب اردوغان نے ان کی تحریک پر 2016 کی ناکام بغاوت کا الزام لگایا۔ تاہم گولن اس الزام کی تردید کرتے رہے ہیں۔
ایک وقت پر حزمت تحریک صدر اردوغان کی حلیف سمجھی جاتی تھی۔ تاہم 2013 میں انہوں نے گولن تحریک پر ’ریاست کے اندر ریاست‘ بنانے کا الزام عائد کیا اور تحریک کے تحت چلنے والے سینکڑوں سکولوں کو بند کرنے کا اعلان کیا۔
گولن تحریک کے حامی سمجھے جانے والے پولیس افسران کی جانب سے اردوغان کے اتحادیوں پر چھاپوں کے بعد، مئی 2016 میں ترک حکومت نے حزمت تحریک کو دہشتگرد تنظیم قرار دے دیا۔
اس کے دو ماہ بعد ترک فوج کے ایک دھڑے نے اردوغان کی حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کی، ان کا کہنا تھا کہ وہ ترک جمہوریت کو آمرانہ ذہنیت کے حامل صدر اردوغان سے بچانا چاہتے تھے۔
گولن تحریک کیا ہے؟
فتح اللہ گولن 1960 کی دہائی میں آئینی طور پر سیکیولر ترکی میں ایک اسلامی مبلغ کے طور پر ابھرے تھے۔
گولن کا کہنا تھا کہ ترکی کے نوجوان اپنی راہ سے بھٹک چکے ہیں اور تعلیم کے ذریعے ہی ان کی اصلاح کی جا سکتی ہے۔
گولن کی تحریک، جسے ترکی میں ’حزمت‘ (خدمت) کہا جاتا ہے، نے اپنی ابتدا سکولوں اور تعلیمی اداروں سے کی اور رفتہ رفتہ وہ دوسرے کاروباروں میں بھی داخل ہو گئے۔ بعدازاں ان کی تحریک کے حامیوں نے فوج اور سرکاری اداروں میں نوکریاں حاصل کرنا شروع کر دیں۔
ان کے حامی انہیں متوازن اسلام کا انسان دوست نمائندہ سمجھتے تھے، جو اپنے نظریات ترکی اور 140 دوسرے ممالک میں قائم اعلیٰ درجے کے سکولوں کے نیٹ ورک کے ذریعے پھیلا رہے تھے۔
تاہم ان کے ناقدین کا الزام ہے کہ انہوں نے ایک خطرناک مسلک تشکیل دے دیا ہے جو ترک ریاست کے تمام شعبوں میں سرایت کر چکا ہے۔
2016 میں ترکی میں ہونے والی ناکام بغاوت کے بعد فوج، تعلیمی اداروں، عدلیہ، غیر سرکاری اداروں، پولیس اور نجی کاروباری اداروں میں زبردست چھانٹی کی گئی اور گولن تحریک کے حامیوں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر نکالا گیا۔
ترک میڈیا کے مطابق سینکڑوں ادارے بند کیے گئے اور ہزاروں فوجیوں کو سروس سے برخاست کیا گیا۔ برخاست کیے گئے فوجی افسران میں ترکی کے نصف جنرل اور ایڈمرل شامل تھے۔
2016 میں ہونے والے کریک ڈاؤن سے قبل گولن کی تنظیم کے ارکان کم و بیش ہر ادارے میں موجود تھے۔
گولن تحریک ملکی اداروں میں کتنی سرائیت کر چکی تھی اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ترکی میں امریکی سفیر کی جانب سے 2009 میں بھیجی جانے والی ایک کیبل کے مطابق ’یہ دعویٰ ثابت کرنا ناممکن ہے کہ (قومی پولیس پر) گولن تحریک کا قبضہ ہے، لیکن ہمیں کوئی شخص ایسا نہیں ملا جو اس کی تردید کرتا ہو۔‘
1999 میں منظرِ عام پر آنے والی ایک دھندلی ویڈیو میں گولن کو یہ کہتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے: ’نظام کی شریانوں میں سرایت کر جاؤ، جب تک تم طاقت کے تمام مراکز تک نہ پہنچو، اس وقت تک کسی کو تمھاری موجودگی کا پتہ نہ چلنے پائے۔۔۔ اس وقت کا انتظار کرو جب ریاست کی تمام طاقت تمھارے ہاتھ میں ہو۔‘
گولن کا دعویٰ تھا کہ ان کے الفاظ کو سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کیا گیا۔ بعض ایسے ترک صحافیوں کو مقدمات کا سامنا کرنا پڑا ہے جنہوں نے ایسے کسی نیٹ ورک کا پردہ چاک کرنے کی کوشش کی۔
ان میں سے ایک اسماعیل سایماز ہیں۔
ماضی میں Uses in Urdu کے نامہ نگار مارک لوون سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا: ’گولن تحریک ریاست کو اندر سے گھیر کر اس پر قبضہ کرنا چاہتی ہے۔ وہ مسلح جنگجو نہیں ہیں بلکہ ججوں، اساتذہ، پولیس، ارکانِ اسمبلی اور تاجروں کا روپ دھارے ہوئے ہیں۔
’دائیں بازو کی حکومتوں نے گولن کے پیروکاروں کو سیکیولر فوج کے خلاف استعمال کیا ہے۔ اس تحریک کو رجب طیب اردوغان کے دور میں سب سے زیادہ تقویت ملی۔‘
اردوغان گولن اتحاد واقعی خاصا مضبوط رہا ہے اور انہوں نے سیکیولر ترکی کا چہرہ بدلنے میں شانہ بشانہ اہم کردار ادا کیا ہے۔
تاہم جب اردوغان کی اے کے جماعت نے اقتدار پر قدم جما لیے تو دونوں کے درمیان دوریاں بڑھتی چلی گئیں۔
جب 2013 میں کئی ایسی فون کالز منظرِعام پر آئیں جن میں اردوغان اور ان کے قریبی ساتھیوں کو بدعنوانی میں ملوث دکھایا گیا تھا تو اس کا الزام گولن کے حامیوں پر لگایا گیا۔
2016 کی بغاوت کے بعد گولن کے بہت سے حامی ملک چھوڑ کر چلے گئے ہیں۔ انھیں ڈر تھا کہ انھیں پکڑ لیا جائے گا۔
عبداللہ بوزکرت ایک زمانے میں ترکی کا سب سے بڑا گولن نواز میڈیا ادارہ ’زمان‘ چلاتے تھے۔
2016 میں وہ بیرونِ ملک منتقل ہو گئے۔ وہ الزام لگاتے ہیں کہ ہر تنقید کرنے والے، اور حزبِ اختلاف سے تعلق رکھنے والے صحافی کو نشانہ بنایا گیا چاہے اس کا تعلق گولن سے ہو یا نہ ہو۔
’یہ بغیر شواہد کے اجتماعی سزا ہے۔ حکومت متبادل نظریات کو دبانا اور لوگوں کو خوفزدہ کرنا چاہتی ہے تاکہ لوگ سنجیدہ سوال نہ اٹھا سکیں۔‘
گولن تحریک کے بارے میں ان کا کہنا تھا: ’یہ ایک بین الاقوامی، بین المذاہب مکالمہ ہے۔ میرا نہیں خیال کہ یہ ترکی میں سرایت کر رہی ہے۔ آپ کا کیا خیال ہے کہ ان کے سکولوں سے فارغ ہونے والے طلبہ کہاں جائیں گے؟ انھیں نجی یا سرکاری اداروں میں کام کرنا ہی تو ہے۔‘
ان کا کہنا تھا: ’آپ کو حکومت کی جانب سے ہر قسم کا پروپیگنڈا سننے کو ملے گا جن میں ویٹیکن یا امریکہ کو موردِ الزام ٹھہرایا جا رہا ہے۔ ان کی ذمہ داری ادھر سے ادھر کرنے کی پوری تاریخ ہے۔ گولن تحریک کو قربانی کا بکرا بنایا جا رہا ہے۔‘