عاقب جاوید کا ملتان ٹیسٹ میں کامیابی کا راز: انگلش بلے بازوں کے لیے سب سے ‘فلیٹ’ پچ کیسے ڈراؤنا خواب بن گئی
مایوسی کی حالت میں انسان ہر طرف ہاتھ پاوں مارنے لگتا ہے، امید ہوتی ہے کہ شاید کچھ اچھا ہو جائے۔ ملتان میں پاکستان بمقابلہ انگلینڈ سیریز کے پہلے میچ میں ناکامی کے بعد پاکستانی ٹیم کو کچھ ایسی ہی صورت حال کا سامنا کرنا پڑا۔
پاکستان کو ہوم گراؤنڈ پر کافی عرصے سے کوئی ٹیسٹ میچ نہیں جیتنے آیا تھا، اور اگلے میچ میں بھی انگلینڈ کے ہاتھوں شکست یقینی دکھائی دے رہی تھی۔ اس سے بچنے کے لیے کچھ نہ کچھ تبدیلی ضروری تھی۔
پہلے میچ میں ناکامی کے بعد، پاکستان کرکٹ بورڈ نے عاقب جاوید، علیم ڈار، اور اظہر علی کو سلیکشن کمیٹی میں شامل کیا۔
اس نئی سلیکشن کمیٹی نے بابر اعظم، شاہین، اور نسم شاہ کو ٹیم سے خارج کرتے ہوئے حسیب اللہ، لیفٹ آرم آف سپنر مہران ممتاز، بلے باز کامران غلام، فاسٹ بولر محمد علی، اور آف سپنر ساجد خان کو ٹیم میں شامل کیا۔
سلیکٹر بننے سے قبل، عاقب جاوید نے ایک انٹرویو میں کہا تھا، 'آپ کا ٹیسٹ میچ کے لیے کیا پلان ہے؟ تین سپنرز کھلائیں، ساری گھاس ہٹا کر ڈرائے پچ بنائیں۔۔۔ برش مار مار کر اسے روکھا بنائیں۔'
عاقب جاوید نے ملتان جا کر اسی طرح کی پچ تیار کرائی۔ پاکستان کا دوبارہ پہلے ٹیسٹ والی پچ پر کھیلنے کا فیصلہ بہت سے مبصرین کے لیے دلکش تھا۔
پھر وہ ہوا جو شاید مایوس پاکستانی کرکٹ شائقین کے دماغ میں بھی نہ تھا۔ ملتان میں انگلینڈ کے خلاف دوسرے ٹیسٹ میں سپنرز کی شاندار کارکردگی کی بدولت پاکستان نے ہوم گراؤنڈ پر 12 ٹیسٹ میچوں میں پہلی فتح حاصل کی۔
یہ پہلا موقع تھا جب پاکستان کے کسی ٹیسٹ میچ کی دونوں اننگز میں تمام وکٹیں سپنرز نے حاصل کیں۔ ساجد خان اور نعمان علی نے اس میچ میں مل کر 20 وکٹیں حاصل کیں۔
لیکن بڑے کھلاڑیوں کو ٹیم سے باہر کرنا اور پچ میں تبدیلی ایک بڑا داؤ تھا، جو اگر الٹا پڑتا تو پاکستانی کرکٹ بورڈ کی بدنامی جاری رہتی۔
لیکن یہ داؤ کامیاب رہا، اور کچھ وقت کے لیے سلیکٹرز سے لے کر پچ کیوریٹرز اور مینجمنٹ کو سکون ملا۔
لیکن اس پچ میں ایسا کیا خاص تھا، اور ایک اچھی پچ کیسی ہوتی ہے؟
عام طور پر یہ ایسی پچ ہوتی ہے جس پر بیٹنگ کرنا آسان ہو۔
اور جو اچھی پچ نہیں ہوتی اسے خراب پچ تو نہیں کہا جا سکتا، مگر یہ کرکٹ شائقین کو بھرپور تماشا فراہم کر سکتی ہے جیسے پاکستان بمقابلہ انگلینڈ کے دوسرے ٹیسٹ میں ہوا۔
شاید ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ ایک اچھی پچ وہ ہوتی ہے جس کے بارے میں پتا ہو کہ اس پر بہترین ٹیم ہی میچ جیتے گی۔ ایسی پچ پر بلے باز کے غلطی کرنے کا امکان کم ہوتا ہے اور بہترین بولرز کے لیے وکٹیں لینا مشکل نہیں ہوتا۔
دوسرے ٹیسٹ کے لیے جو پچ تیار کی گئی، اسے جیسے دوبارہ استعمال کیا گیا، رف بنایا گیا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ انگلینڈ جیسی بہترین ٹیم کے آگے پاکستانی ٹیم مشکل میں تھی اور کوئی معجزہ درکار تھا۔
جس وقت انگلینڈ اور پاکستان کے بیچ ٹیسٹ سیریز برابر ہوئی اس وقت تک یہ پچ نو دن پرانی ہو چکی تھی۔ اس پچ پر پہلی سے آخری گیند کروانے تک 12 دن کا وقت گزر چکا ہے۔
کرکٹ کے ماہرین اور تجزیہ کار ملتان کی پچ کو اس کرہ ارض پر دوسری فلیٹ ترین پچ قرار دے رہے تھے۔
مگر دوسرے ٹیسٹ کے تیسرے دن تک یہی پچ پاکستان میں کرکٹ کی واپسی (2019) سے لے کر اب تک کی سب سے مشکل ترین پچ قرار دی جا چکی ہے۔
اسی دورانیے میں اس پچ کو دنیا بھر میں کھیلے گئے 190 ٹیسٹ میچوں کی 10 مشکل ترین پچوں میں شامل کیا گیا ہے۔
اس پچ نے کھلاڑیوں کو بہترین مواقع فراہم کیے مگر کرکٹ کے تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اس سب میں ٹاس کا بھی بڑا ہاتھ ہے۔
شان مسعود اور بین سٹوکس دونوں نے ٹاس کی اہمیت کو تسلیم کیا ہے۔
سٹوکس نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ اگر پاکستان کا پلان الٹا پڑ جاتا تو شاید وہ احمق نظر آتے۔
سٹوکس نے یہ بھی تسلیم کیا کہ ہوم گراؤنڈ کنڈیشنز سے فائدہ لینے میں کوئی برائی نہیں اور انگلینڈ بھی اکثر ایسا کرتا ہے۔
اس کی بہترین مثال 2015 کا ٹرینٹ برج ایشز ٹیسٹ ہے جس میں سٹورٹ براڈ نے 15 رنز دے کر آٹھ وکٹیں لی۔
انگلینڈ نے اس پچ کے بارے میں ابھی تک کسی بھی سطح پر کوئی شکایت نہیں کی، جبکہ کوچ برینڈن میکلم نے پاکستانی حکمت عملی کی تعریف کی ہے۔
راولپنڈی کی پچ کیسی ہو گی؟
لیکن اب سوال یہ ہے کہ راولپنڈی، جہاں فیصلہ کن ٹیسٹ کھیلا جائے گا، وہاں پچ کیسی ہو گی؟
سوال یہ بھی ہے کہ راولپنڈی کے گراؤنڈز عملے کو پچ کے لیے اپنے سابقہ پلان تبدیل کرنے کا فون کب آیا ہو گا؟
اگست میں اس پچ پر بنگلہ دیش کے خلاف دو ٹیسٹ میچز میں پاکستان نے ایک بھی فرنٹ لائن سپنر نہیں کھلایا۔ مگر اس بار شاید کسی فاسٹ بولر کی ضرورت نہ رہے۔
اگر تازہ پچ تیار ہوئی بھی ہے تو ممکن ہے پی سی بی اس میں تبدیلی کا عمل شروع کر دے۔
کیونکہ ملتان میں کامیابی کے بعد کپتان شان مسعود کا کہنا ہے کہ وہ چاہیں گے کہ پنڈی میں تیسرے ٹیسٹ کے لیے بھی ’سپننگ پچ‘ ہو۔
شان کو امید ہے کہ سورج اپنا جادو دکھائے گا، وکٹ ڈرائے ہو گی اور دونوں ٹیموں کو بہتر کرکٹ کھیلنے اور 20، 20 وکٹیں لینے کا موقع مل سکے۔
ماضی میں انڈیا میں بھی ’سپننگ‘ ٹریکس بنتے رہے ہیں اور انڈیا میں سپننگ وکٹیں بنانے والوں کی پسندیدہ تکنیک یہ ہے کہ پچ کو ضرورت سے کم تیار کیا جائے۔
مگر آپ ہر میچ ایسی پچ پر نہیں کھیل سکتے۔ نہ آپ ہر میچ میں سپنز پر تکیہ کر سکتے ہیں اور ایک دن بابر، شاہین اور نسیم شاہ کو ٹیم میں واپس آنا ہی ہے۔