امریکی صدر کے انتخاب میں کلیدی کردار ادا کرنے والی سات ریاستیں
اس سال امریکہ کے صدارتی انتخاب میں تقریباً 24 کروڑ لوگ ووٹ ڈالنے کے اہل ہیں، لیکن ان میں سے ایسے لوگوں کی تعداد نسبتاً کم ہے جو یہ فیصلہ کر سکیں گے کہ ملک کا اگلا صدر کون بنے گا۔
ماہرین کا خیال ہے کہ امریکہ میں چند ہی ایسی ریاستیں ہیں جہاں انتخاب میں ڈیموکریٹ امیدوار کملا ہیرس اور ریپبلکن امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کے مابین سخت مقابلہ ممکن ہے اور یہی ریاستیں فیصلہ کریں گی کہ ملک کا اگلا صدر کون ہوگا۔
ان سات ریاستوں میں ایریزونا، جارجیا، مشیگن، نیواڈا، شمالی کیرولینا، پینسلوینیا اور وسکونسن شامل ہیں اور انہیں ’سوئنگ سٹیٹس‘ کہا جاتا ہے جن کے پاس وائٹ ہاؤس کی چابیاں ہیں۔
دونوں جماعتیں ان ریاستوں میں ایسے غیرفیصلہ کن ووٹروں پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں جن کا ووٹ ان کے لیے فیصلہ کن ثابت ہو سکتا ہے۔
ایریزونا
ڈیموکریٹس نے 2020 میں اس ریاست کی حمایت سے صدارت حاصل کی، جو 1990 کی دہائی کے بعد پہلی بار ان کے امیدوار کی حمایت میں ووٹ دیا۔
ایریزونا کی سینکڑوں میل لمبی سرحد میکسیکو سے ملتی ہے اور یہ ریاست ملک میں امیگریشن پر جاری بحث کا ایک مرکزی نکتہ بن چکی ہے۔
حالیہ مہینوں میں سرحد پار کرنے کے واقعات میں کمی آئی ہے اور یہ مسئلہ ان معاملات میں سرفہرست ہے جس پر ووٹروں میں تشویش پائی جاتی ہے۔
ٹرمپ نے بارہا امیگریشن سے متعلق کملا ہیرس کے ریکارڈ پر حملہ کیا ہے، کیونکہ انھیں صدر جو بائیڈن نے سرحدی بحران کو کم کرنے کی کوششوں کے لیے ذمہ داری دی تھی۔
انھوں نے اس عزم کا اظہار بھی کیا ہے کہ اگر وہ دوبارہ صدر بن جاتے ہیں تو وہ امریکی تاریخ میں ملک بدری کا سب سے بڑا آپریشن کریں گے۔
ایریزونا میں اسقاط حمل تک رسائی کے معاملے پر بھی تلخ تنازعہ سامنے آ چکا ہے، جب ریاست میں ریپبلکنز نے اسقاطِ حمل پر 160 برس پہلے لگائے جانے والی تقریباً مکمل پابندی کے دوبارہ نفاذ کی ناکام کوشش کی۔
یہ معاملہ 2022 کے بعد سے مزید تقسیم کا باعث بنا جب امریکی سپریم کورٹ نے اس تاریخی فیصلے کو کالعدم قرار دے دیا جس نے خواتین کو اسقاط حمل کا آئینی حق دیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: لارنس بشنوئی کی جانب سے معافی مطالبے پر سلمان خان کے والد کا کرارا جواب
جارجیا
ہمارے سوئنگ ریاستوں کی فہرست اُن ریاستوں سے ملتی ہے جہاں ٹرمپ کے حمایت یافتہ ریپبلکن عہدیداروں نے 2020 کے انتخابات میں جو بائیڈن کی جیت کو ناکام بنانے کی کوشش کی۔
جارجیا کی فلٹن کاؤنٹی میں، مبینہ انتخابی مداخلت نے ٹرمپ کو ان کے چار مجرمانہ مقدمات میں سے ایک میں پھنسایا ہے (ایک مقدمے میں ٹرمپ کو سزا سنائی گئی ہے، جبکہ باقی مقدمات اب بھی جاری ہیں)۔
ان پر اور دیگر 18 افراد پر ریاست میں جو بائیڈن کے ہاتھوں شکست کے نتائج کو تبدیل کرنے کی سازش کا الزام ہے۔ ٹرمپ کسی بھی غلط کام کی تردید کرتے ہیں، اور ایسا لگتا ہے کہ الیکشن سے قبل عدالت میں اس کیس کی سماعت کا کوئی امکان نہیں ہے۔
جارجیا کی آبادی کا ایک تہائی حصہ افریقی نژاد امریکی ہے، جو اس ملک کے سیاہ فام باشندوں کی سب سے بڑی تعداد میں سے ایک ہے، اور یہ خیال کیا جاتا ہے کہ 2020 میں بائیڈن کی اس ریاست میں کامیابی میں اس آبادی کا ایک اہم کردار تھا۔
امریکہ کے سیاہ فام ووٹروں میں جو بائیڈن کے حوالے سے مایوسی کی اطلاعات سامنے آئی تھیں، لیکن کملا ہیرس اس حلقے کو متحرک کرنے کی امید رکھتی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: پاک روس دو طرفہ تعلقات میں اہم پیشرفت، روسی وزیر خارجہ کا دورہ پاکستان متوقع
مشیگن
پچھلے دو صدارتی انتخابات میں جو امیدوار اس ریاست میں کامیاب ہوا، وہی وائٹ ہاؤس تک پہنچا۔ 2020 میں جو بائیڈن کی حمایت کے باوجود، یہ غزہ کی جنگ کے دوران اسرائیل کے لیے امریکی صدر کی حمایت پر ملک گیر ردعمل کی علامت بن گئی ہے۔
فروری میں مشیگن کے ڈیموکریٹک پرائمری مقابلے کے دوران، ایک لاکھ سے زیادہ ووٹرز نے اپنے بیلٹ پیپر پر ’ان کمٹڈ‘ آپشن کا انتخاب کیا، جو اس مہم کا حصہ ہے جس کا مقصد امریکی حکومت کی اسرائیل کے لیے فوجی امداد روکنا ہے۔
مشیگن میں عرب نژاد Americans کی آبادی کا تناسب ملک میں سب سے زیادہ ہے اور ان کی جانب سے جو بائیڈن کی حمایت خطرے میں نظر آ رہی تھی لیکن کملا ہیرس نے اسرائیل پر سخت لہجہ اپنایا ہے، اور غزہ کے مظاہرین نے Uses in Urdu کو بتایا ہے کہ ان کی امید ہے کہ وہ ان کے مقصد کے تئیں زیادہ ہمدرد ثابت ہوں گی۔
ٹرمپ نے جیت کے اپنے ممکنہ راستے میں ریاست کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے۔ مشرق وسطیٰ میں ہونے والے واقعات پر تبصرہ کرتے ہوئے، انھوں نے اسرائیل سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ غزہ میں حماس کے خلاف اپنی مہم ختم کرے اور ’اسے تیزی سے ختم کرے۔‘
یہ بھی پڑھیں: احسن ریاض فتیانہ، سابق ایم پی اے، اغوا— مقدمہ درج
نیواڈا
اس ریاست نے پچھلے کئی صدارتی انتخابات میں ڈیموکریٹس کو ووٹ دیا ہے، لیکن اس بار یہاں ریپبلکنز کی طرف جھکاؤ کے آثار نظر آ رہے ہیں۔
پول ٹریکنگ فرم 538 کی حالیہ اوسط سے پتہ چلتا ہے کہ انتخابی جائزوں میں جہاں ایک وقت میں ٹرمپ کو بائیڈن پر واضح برتری حاصل دکھایا گیا تھا، وہاں جب سے کملا ہیرس میدان میں اتری ہیں، یہ فرق کم ہوا ہے۔ ڈیموکریٹس نے امید ظاہر کی تھی کہ نوجوان اور زیادہ متنوع ووٹرز کو پسند آنے والا امیدوار اس فرق کو ختم کر دے گا۔
دونوں امیدوار ریاست کی قابل ذکر لاطینی آبادی کا اعتماد جیتنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
اس حقیقت کے باوجود کہ جو بائیڈن کے صدارت سنبھالنے کے بعد سے امریکی معیشت میں ٹھوس ترقی اور نئی ملازمتیں سامنے آئی ہیں، اس ریاست میں کووڈ کی وبا کے بعد بحالی دوسری ریاستوں کے مقابلے میں سست رہی ہے۔
امریکی حکومت کے تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق، کیلیفورنیا اور ڈسٹرکٹ آف کولمبیا کے بعد اس ریاست میں بےروزگاری کی شرح سب سے زیادہ یعنی 5.1 فیصد ہے۔
اگر ٹرمپ دوبارہ برسرِ اقتدار آتے ہیں، تو انھوں نے سب کے لیے کم ٹیکس اور کم ضوابط کے ایجنڈے کی بحالی کا عزم ظاہر کیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: وزیراعظم سے بلاول بھٹو کی ملاقات، آئینی ترمیم کے حتمی مسودے پر مشاورت
شمالی کیرولائنا
کملا ہیرس کی بطور صدارتی امیدوار نامزدگی کے بعد اس ریاست میں مقابلہ سخت ہو گیا ہے اور کچھ تجزیہ کار اب اسے ’ٹاس اپ‘ سمجھ رہے ہیں۔
جولائی میں قاتلانہ حملے کی کوشش کے بعد سے ٹرمپ کی پہلی آؤٹ ڈور ریلی کے انتخاب میں شاید اس معاملے کی عکاسی ہوتی ہے۔
انھوں نے مجمع سے خطاب میں کہا کہ ’یہ ریاست جیت کے لیے ایک بہت بڑی ریاست ہے۔‘
ادھر ڈیموکریٹس نے اپنی پارٹی کے کنونشن کی آخری رات ریاست کے گورنر، رائے کوپر کو سٹیج دینے کا فیصلہ کیا۔
شمالی کیرولائنا کی سرحد جارجیا سے متصل ہے، اور اس کے کچھ سرفہرست انتخابی خدشات جارجیا اور ایریزونا سے ملتے جلتے ہیں۔
ٹرمپ نے 2020 میں شمالی کیرولائنا میں کامیابی حاصل کی لیکن فرق صرف 70,000 ووٹوں کا تھا، جس نے ڈیموکریٹس کی امیدوں کو مزید بڑھا دیا ہے کہ یہاں 2024 میں کامیابی حاصل کی جا سکتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: چکوال :پرانی دشمنی کا شاخسانہ ، خاتون اپنے بھائی اور بیٹے سمیت قتل
پینسلوینیا
دونوں فریقین کیسٹون ریاست میں بھرپور انداز میں مہم چلا رہے ہیں۔ یہی وہ ریاست ہے جہاں ٹرمپ پر قاتلانہ حملہ ہوا تھا جس میں وہ بچ گئے تھے۔
2020 کے انتخابات میں یہ ریاست اہم ثابت ہوئی تھی جب یہاں سے بائیڈن جیتے تھے۔ وہ اس کے شہر سکرینٹن میں پلے بڑھے تھے اور اکثر اس کے محنت کش طبقے کے ساتھ روابط پر بات کرتے تھے۔
دیگر ریاستوں کی طرح یہاں بھی معیشت سب سے اہم مسئلہ ہے۔ بائیڈن کے دور میں مہنگائی یعنی افراطِ زر میں بتدریج کمی سے قبل اس میں اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔
پینسلوینیا کے شہری بھی مہنگائی کے باعث اخراجاتِ زندگی کا دباؤ محسوس کر رہے ہیں۔ مارکیٹ پر گہری نظر رکھنے والی تنظیم ڈیٹاسمبلی کے مطابق اس ریاست میں گروسری کے اخراجات دیگر ریاستوں کے مقابلے کہیں زیادہ تیزی سے بڑھے ہیں۔
پینسلوینیا کے شہر ایری میں لوگوں کا گزر بسر مشکل ہو رہا ہے۔ Uses in Urdu نے اس حوالے سے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ کیسے وہاں ہر آٹھ میں سے ایک شخص غذائی بحران کا شکار تصور کیا جاتا ہے۔
امریکہ میں شدید مہنگائی کی وجہ سے کملا ہیرس کی انتخابی مہم متاثر ہوسکتی ہے کیونکہ اس سے ووٹروں میں معیشت کے حوالے سے عدم تحفظ کا تاثر پھیلتا ہے۔
ٹرمپ نے معیشت پر بائیڈن انتظامیہ کو آڑے ہاتھوں لیا ہے اور کملا ہیرس پر بھی لفظی وار کیے ہیں۔
وسکونسن
’بیجر سٹیٹ‘ کہلائی جانے والی ریاست وسکونسن نے 2016 اور 2020 میں اسی شخص کا انتخاب کیا جو امریکی صدر بنا۔ مگر یہاں کانٹے کا مقابلہ رہا اور جیتنے والے امیدوار کو صرف 20 ہزار سے کچھ زیادہ ووٹ ملے۔
مبصرین کا خیال ہے کہ یہاں کسی تیسرے امیدوار کی موجودگی معنی خیز ہوسکتی ہے۔ یعنی ایسا امیدوار جو ٹرمپ اور ہیرس دونوں کی پالیسیوں کا ناقد ہو۔
رائے شماری کے اندازے آزاد امیدوار رابرٹ ایف کینیڈی جونیئر کی خاطر خواہ حمایت کا اشارہ دیتے ہیں۔ اس سے ہیرس یا ٹرمپ کے ووٹ کم پڑ سکتے ہیں۔ کینیڈی نے اگست کے اواخر میں اپنی مہم ختم کر کے ٹرمپ کی حمایت کا اعلان کیا تھا۔
ڈیموکریٹس گرین پارٹی کی امیدوار جِل سٹین کو بیلٹ سے ہٹانے کی کوششیں کر رہے ہیں۔ ان کے مطابق اس جماعت نے ریاست میں انتخابی قوانین کی پیروی نہیں کی۔ انھوں نے بائیں بازو کے ادبی ماہر کورنل ویسٹ کے خلاف بھی انتخابی شکایت درج کروائی ہے۔
ٹرمپ نے اس ریاست کو ’بہت اہم‘ قرار دیا ہے۔ ’اگر ہم وسکونسن سے جیتے تو پورا الیکشن جیت جائیں گے۔‘
ریپبلکن پارٹی کا سمر نیشنل کنونشن ملواکی میں ہوا تھا۔ ہیرس بھی اسی شہر میں ریلیوں میں حصہ لے رہی تھیں جب پارٹی کنونشن نے انھیں باضابطہ طور پر ڈیموکریٹ امیدوار نامزد کیا۔ وہ اس تقریب میں بذریعہ لائیو سٹریم شامل ہوئی تھیں۔