منصور علی شاہ، منیب اختر یا یحییٰ آفریدی: پاکستان کے نئے چیف جسٹس کی تقرری کا عمل شروع
پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ پارلیمانی کمیٹی کے ذریعے ملک کی سب سے بڑی عدالت یعنی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کا انتخاب کا عمل شروع ہوگیا ہے۔
اس سے پہلے سپریم کورٹ کی حالیہ تاریخ میں الجہاد ٹرسٹ کیس کے فیصلے کی روشنی میں سب سے سینیئر جج ہی ملک کا چیف جسٹس ہوتا تھا۔
26ویں آئینی ترمیم کی منظوری کے نتیجے میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی تعیناتی سے متعلق تشکیل پانے والی پارلیمانی کمیٹی میں حکومت اور حزبِ اختلاف کے نمائندے شامل ہیں اور اس کا پہلا اجلاس آج پارلیمنٹ ہاؤس میں منعقد ہو رہا ہے۔
اس آئینی ترمیم کے پاس ہونے سے پہلے آئین کے آرٹیکل 175 اے کے تحت ججوں کی تعیناتی سے متعلق جو پارلیمانی کمیٹی تشکیل دی گئی تھی اس کی سربراہی بھی وزیر دفاع خواجہ آصف کر رہے تھے تاہم اس پارلیمانی کمیٹی کا کردار ربر سٹیمپ سے زیادہ نہیں تھا۔
پارلیمان کی 12 رکنی کمیٹی میں پاکستان مسلم لیگ نواز کی نمائندگی خواجہ محمد آصف، احسن اقبال، اعظم نذیر تارڑ اور شائستہ پرویز ملک کر رہے ہیں جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی کی طرف سے راجہ پرویز اشرف، سید نوید قمر اور سینیٹر فاروق ایچ نائیک کو نامزد کیا گیا ہے۔
اس کے علاوہ جمعیت علمائے اسلام کے سینیٹر کامران مرتضی، ایم کیو ایم کی رعنا انصار، پاکستان تحریک انصاف کے بیرسٹر گوہر علی خان اور بیرسٹر علی ظفر جبکہ سنی اتحاد کونسل کی جانب سے حامد رضا بھی اس کمیٹی کا حصہ ہیں۔
تحریکِ انصاف نے اگرچہ اس کمیٹی کے لیے اپنے نمائندوں کو نامزد کیا تاہم جماعت نے چیف جسٹس کے چناؤ کے عمل میں حصہ لینے سے انکار کر دیا ہے۔
چیف جسٹس کا انتخاب کیسے ہو گا
آئینی ترمیم کے بعد اب وزارتِ قانون کی طرف سے سپریم کورٹ کے تین سب سے سینیئر ججوں کے نام اس پارلیمانی کمیٹی کو بھیج دیے گئے ہیں۔
رجسٹرار آفس کے حکام نے Uses in Urdu کو تصدیق کی ہے کہ یہ عمل منگل کی دوپہر مکمل ہو گیا ہے۔
اب کمیٹی کو ان میں سے ایک جج کی بطور چیف جسٹس تعیناتی کی منظوری دو تہائی اکثریت سے دینی ہو گی یعنی 12 میں سے آٹھ ارکان جس جج کی حمایت کریں گے وہ پاکستان کا اگلا چیف جسٹس ہو گا۔
وزارت قانون کے ایک اہلکار کے مطابق ان کی وزارت کو یہ نام منگل کو ہی پارلیمانی کمیٹی کو بھیجنے اس لیے ضروری تھے کیونکہ نئی آئینی ترمیم کے تحت موجودہ چیف جسٹس کی ریٹائرمنٹ سے تین دن قبل پارلیمانی کمیٹی کو کسی ایک جج کے نام پر اتفاق کرکے ضابطے کی کارروائی کو آگے بڑھانا لازم ہے۔
خیال رہے کہ پاکستان کے موجودہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ 25 اکتوبر کو ریٹائر ہو رہے ہیں۔
اس وقت پاکستان کی سپریم کورٹ میں سنیارٹی کے لحاظ سے تین سب سے سینیئر جج جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر اور جسٹس یحییٰ آفریدی ہیں۔ آئیے جانتے ہیں یہ جج کون ہیں اور ان کا قانونی کریئر کیسا رہا۔
یہ بھی پڑھیں: سندھ پولیس سپیشل پروٹیکشن یونٹ کے 6 اہلکاروں کوکیوں برطرف کیا گیا ؟ وجہ جانیے
جسٹس منصور علی شاہ
جسٹس منصور علی شاہ اس وقت چیف جسٹس فائز عیسیٰ کے بعد سپریم کورٹ کے سب سے سینیئر جج ہیں اور حالیہ آئینی ترمیم سے پہلے ان کا اگلا چیف جسٹس بننا طے تھا تاہم اب ان کا مقابلہ بقیہ دونوں ججوں سے ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے لاہور میں ایچیسن کالج سے ابتدائی تعلیم کے بعد پنجاب یونیورسٹی لا کالج سے وکالت کی ڈگری حاصل کی۔ وہ برطانیہ کی مشہور کیمبرج یونیورسٹی سے بھی فارغ التحصیل ہیں۔
انھوں نے قانون کی باقاعدہ پریکٹس 1991 میں شروع کی اور پھر 1997 میں آفریدی، شاہ اور من اللہ لا فرم کی بنیاد رکھی جس کے تین مرکزی وکیلوں میں منصور علی شاہ کے علاوہ موجودہ سپریم کورٹ کے دو دیگر جج جسٹس یحییٰ آفریدی اور جسٹس اطہر من اللہ شامل تھے۔
2007 میں جب سابق فوجی صدر پرویز مشرف کی جانب سے اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کو نظربند کیا گیا تو اس کے ردعمل میں شروع کی جانے والی وکلا تحریک میں منصور علی شاہ پیش پیش تھے۔
15 ستمبر 2009 کو انھیں اس وقت کے صدر آصف علی زرداری نے لاہور ہائیکورٹ میں ایڈیشنل جج تعینات کیا اور پھر انھیں کچھ عرصے کے بعد عدالتِ عالیہ کا مستقل جج بنا دیا گیا۔
ساڑھے سات برس کے عرصے کے بعد 27 جون 2017 کو جسٹس منصور علی شاہ لاہور ہائی کورٹ کے 45 ویں چیف جسٹس مقرر ہوئے اور چند ہی ماہ بعد سات فروری 2018 کو انھیں سپریم کورٹ میں تعینات کر دیا گیا۔
سپریم کورٹ میں بطور جج منصور علی شاہ کئی اہم مقدمات کی سماعت کرنے والے بینچوں کا حصہ رہے ہیں۔
وہ سابق چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کے دور میں اس بینچ کا بھی حصہ تھے جس نے سابق آرمی چیف قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت سے متعلق درخواست کی سماعت کی تھی اور اس کے بعد کافی عرصے تک جسٹس منصور علی شاہ کو کسی بھی ایسے بینچ کا حصہ نہیں بنایا گیا تھا جو اہم مقدمات کی سماعت کر رہا تھا۔
تاہم جسٹس فائز عیسیٰ کے دور میں وہ اس بینچ کا حصہ بنے جس نے سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے عدالتی قتل سے متعلق دائر ریفرنس پر فیصلہ دیا۔ اس کے علاوہ وہ پارلیمان سے منظور ہونے والے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کو منظور کرنے والے بینچ کا حصہ بھی بنے۔
حال ہی میں، وہ پاکستان تحریکِ انصاف کو مخصوص نشستوں کی الاٹمنٹ کے معاملے میں ان آٹھ ججوں میں سے ایک تھے جنھوں نے اکثریتی فیصلہ عمران خان کی جماعت کے حق میں دیا تھا۔ اس فیصلے کے بعد انھی ججوں نے اپنے فیصلے پر عملدرآمد سے متعلق دو وضاحتی بیانات بھی جاری کیے لیکن الیکشن کمیشن نے ابھی تک اس عدالتی فیصلے پر عمل نہیں کیا۔
جسٹس منصور علی شاہ نے عدالتی نظام میں بہت سی اصلاحات متعارف کروائی ہیں اور وہ ججوں کی کارکردگی کو جانچنے کے لیے بھی عدالتی اصلاحات پر زور دیتے رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: وکلاء اور حکومت ایک ہی ٹیم کی طرح کام کر رہے ہیں: وزیر قانون پنجاب صہیب احمد بھرتھ
جسٹس منیب اختر
جسٹس منیب اختر کا تعلق لاہور سے ہے اور وہ پاکستان مسلم لیگ نون کے دور میں وزیر قانون رہنے والے وکیل خالد انور کے داماد ہیں۔
لاہور میں ایچیسن کالج سے تعلیم حاصل کرنے والے منیب اختر امریکہ سے قانون کی اعلیٰ تعلیم حاصل کر چکے ہیں۔
انھوں نے بطور وکیل اپنا کریئر کراچی سے شروع کیا، جس کے بعد 2009 میں انھیں سندھ ہائیکورٹ کا ایڈیشنل جج تعینات کیا گیا اور دو برس بعد وہ اس عہدے پر مستقل کر دیے گئے۔
سنہ 2018 میں، سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کے دور میں، جسٹس منیب اختر کو ایسے وقت سپریم کورٹ کا جج تعینات کیا گیا جبکہ سندھ ہائی کورٹ کے چار جج ان سے سینیئر تھے۔
سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے دور میں، جسٹس منیب اختر زیادہ تر ایسے بینچز کا حصہ رہے جو آئینی نوعیت کے مقدمات کی سماعت کر رہے تھے۔ ان دونوں کے ساتھ تیسرے جج جسٹس اعجاز الااحسن تھے جنھوں نے رواں برس کے آغاز میں استعفیٰ دے دیا تھا۔
اسی دور میں سپریم کورٹ کے موجودہ چیف جسٹس، جسٹس قاضی فائز عیسی کے خلاف صدارتی ریفرنس کی سماعت کے دوران، جسٹس منیب اختر کے چیف جسٹس کی اہلیہ کے ساتھ بھی تلخ جملوں کے تبادلے کے کئی واقعات پیش آئے تھے۔
جسٹس منیب اختر نے آئین کے آرٹیکل 63 اے سے متعلق صدارتی ریفرنس پر وہ متنازع فیصلہ بھی دیا تھا جس میں پارلیمانی لیڈر کی ہدایت کے خلاف ووٹ دینے پر رکنِ پارلیمان کی نااہلی کے ساتھ ساتھ اس ووٹ کو شمار نہ کرنے کو کہا گیا تھا۔ اسی فیصلے کی روشنی میں پنجاب میں مسلم لیگ ن کے وزیر اعلیٰ حمزہ شہباز کی حکومت کو ختم کیا گیا تھا۔
سپریم کورٹ نے حال ہی میں اس عدالتی فیصلے کے خلاف نظرثانی کی اپیل میں اس فیصلے کو کالعدم قرار دے دیا ہے اور کہا کہ یہ عدالتی فیصلہ کسی طور پر بھی آئین کے مطابق نہیں تھا۔
نظرثانی کی اس درخواست میں چیف جسٹس نے جسٹس منیب اختر کو اس بینچ میں شامل ہونے کا کہا تھا، لیکن انھوں نے اس بینچ کی تشکیل پر تحفظات کا اظہار کیا تھا اور وہ اس بینچ کا حصہ نہیں بنے تھے۔
یہ بھی پڑھیں: گنڈا پور نے آئینی ترمیم کیخلاف احتجاج کی دھمکی دے دی
جسٹس یحییٰ آفریدی
پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے قبائلی ضلع سے تعلق رکھنے والے جسٹس یحییٰ آفریدی اس وقت سپریم کورٹ میں سینیارٹی کے لحاظ سے تیسرے نمبر پر ہیں۔
جسٹس منصور علی شاہ کی طرح، انھوں نے بھی قانون کی ابتدائی تعلیم پاکستان سے حاصل کرنے کے بعد برطانیہ کی کیمبرج یونیورسٹی سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی ہوئی ہے۔
سنہ 2010 میں پشاور ہائی کورٹ کا ایڈیشنل جج تعینات ہونے سے پہلے، وہ آفریدی، شاہ اور من اللہ لا فرم کا حصہ تھے۔
2012 میں جب انھیں پشاور ہائی کورٹ کا مستقل جج تعینات کیا گیا تو انھوں نے اس ادارے سے علیحدگی اختیار کر لی تھی۔
ہائیکورٹ میں چار سال کام کے بعد 30 دسمبر 2016 کو جسٹس آفریدی کو پشاور ہائی کورٹ کا چیف جسٹس تعینات کیا گیا۔
اس عرصے کے دوران جب سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے خلاف آئین شکنی کا مقدمہ چل رہا تھا تو انھوں نے کچھ عرصے کے لیے اس خصوصی بینچ کی سربراہی کی تاہم پھر وہ اس بینچ سے الگ ہو گئے تھے۔
پشاور ہائیکورٹ میں چھ برس کا عرصہ گزارنے کے بعد 28 جون 2018 کو انھیں سپریم کورٹ کا جج تعینات کیا گیا۔
جسٹس یحییٰ آفریدی نے موجودہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کے خلاف دائر صدارتی ریفرنس میں قاضی فائز عیسی کی درخواست کو مسترد کیا تھا۔
تاہم حال ہی میں وہ چیف جسٹس کے ساتھ ان چار ججوں میں شامل تھے جنھوں نے مخصوص نشستیں پاکستان تحریک انصاف کو الاٹ کرنے کی مخالفت کی تھی۔
جسٹس یحییٰ آفریدی کی عمر اس وقت 59 سال ہے اور اگر ان کا نام بطور چیف جسٹس منظور کر لیا جاتا ہے تو پھر بھی انھیں ریٹائرمنٹ کی مقررہ عمر تک پہنچنے سے تین برس قبل ہی ریٹائر ہونا پڑے گا۔
اس کی وجہ 26 ویں آئینی ترمیم ہے جس میں یہ کہا گیا ہے کہ ملک کے چیف جسٹس کا تقرر تین سال کے لیے ہو گا اور یہ مدت مکمل ہونے کے بعد اس چیف جسٹس کو ریٹائر ہی سمجھا جائے گا چاہے وہ 65 سال کی عمر کو نہ بھی پہنچا ہو۔
’جسٹس منصور عدالتی اصلاحات کے بہت بڑے حامی ہیں‘
پاکستان بار کونسل کے سابق وائس چیئرمین امجد شاہ نے بتایا کہ سپریم کورٹ کے ان تین ججز میں جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس یحیی آفریدی کا قانونی کیریئر بہت بہتر ہے اور وہ دونوں ہائی کورٹ کے چیف جسٹس بھی رہ چکے ہیں، جس سے انہیں انتظامی امور کا تجربہ بھی حاصل ہے۔
انہوں نے بات کرتے ہوئے کہا کہ جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس یحیی آفریدی نے متعدد ایسے فیصلے دیے ہیں جنہیں وکلا کی برادری میں بڑی عزت دی جاتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ جسٹس منیب اختر کو سینیارٹی کے اصول کی خلاف ورزی کرتے ہوئے سپریم کورٹ کا جج بنایا گیا تھا، جس پر وکلا برادری نے احتجاج بھی کیا تھا۔
امجد شاہ کا کہنا تھا کہ چونکہ وہ سپریم کورٹ میں بھی پیش ہوتے رہے ہیں جبکہ جسٹس منیب اختر معمولاً گیارہ بجے تک مقدمات کی سماعت کے لئے دستیاب ہوتے تھے اور گیارہ بجے کے بعد وہ مقدمات کی سماعت نہیں کرتے تھے۔
انہوں نے بتایا کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے بھی جسٹس منیب اختر کو جو خط لکھا، اس میں ان کی گیارہ بجے کے بعد عدم دستیابی کا ذکر کیا گیا جبکہ ان کے جونیئر ججز اور خاص طور پر ایڈہاک ججز کے ساتھ بدتمیزی اور ناروا سلوک کا بھی ذکر ہوا۔
چوہدری اکرام ایڈووکیٹ نے کہا کہ سوشل میڈیا اس قدر ترقی کر چکا ہے کہ جو جج سوشل میڈیا پر وائرل ہو جاتا ہے، اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ بہتر جج ہے، حالانکہ حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ جسٹس منصور علی شاہ عدالتی اصلاحات کے بہت بڑے حامی ہیں اور وہ خود بھی کہتے ہیں کہ کسی بھی اہم عہدے کے لئے سنیارٹی کے ساتھ ساتھ قابلیت کو بھی مدنظر رکھنا چاہیے۔
انہوں نے مزید کہا کہ جسٹس یحیی آفریدی نے کبھی بھی کسی معاملے میں اپنے آپ کو متنازع نہیں بنایا اور وہ آئین اور قانون کے مطابق فیصلے دیتے رہے، جبکہ جسٹس منیب اختر کئی مقدمات کی سماعت میں اپنے ریمارکس اور رویے کی وجہ سے متنازع رہے ہیں۔