سرینگر اور لداخ کے درمیان ہائی وے پر حملہ: بھارت کے لیے نیا سیکیورٹی چیلنج کیوں؟
ایسے وقت میں جب انڈیا اور چین کے درمیان تقریباً چار برس کے بعد لداخ میں سرحدی تناؤ ختم ہوتا دکھائی دے رہا ہے، انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے علاقے سونا مرگ میں عسکری اعتبار سے اہم سمجھی جانے والی ایک سرنگ پر نامعلوم افراد کی جانب سے حملے نے انڈیا کو نئی مشکل میں ڈال دیا ہے۔
اتوار کی شام نامعلوم مسلح افراد کی جانب سے اس سرنگ پر حملے میں ایک ڈاکٹر سمیت سات افراد ہلاک اور کئی دیگر زخمی ہوئے تھے جو تکمیل کے آخری مراحل میں ہے۔
اس سرنگ کو اس لیے اہم سمجھا جاتا ہے کیونکہ یہ چینی سرحد کے لیے انڈین فوج کی سامان و اسلحے کی ترسیل و نقل مکانی کے لیے واحد زمینی رابطہ ہے۔
چونکہ یہ سرنگ سرینگر اور لداخ کے درمیان واحد رابطہ ہائی وے پر بن رہی ہے اس لیے مبصرین اس حملے کو انڈیا کے لیے ایک نیا سکیورٹی چیلنج قرار دے رہے ہیں۔
اس حملے کی ذمہ داری باقاعدہ طور کسی مسلح گروپ نے قبول نہیں کی تاہم انڈین ذرائع ابلاغ نے انڈیا کی خفیہ ایجنسیوں کے حوالے سے رپورٹ کیا کہ وہ اس حملے کا الزام پاکستان میں کالعدم تنظیم لشکر طیبہ کی کشمیر میں سرگرم ذیلی شاخ ’دا ریزِسٹنس فرنٹ‘ (ٹی آر ایف) پر عائد کر رہی ہیں جبکہ حکام کی جانب سے باضابطہ طور پر کوئی بیان جاری نہیں کیا گیا۔
یہ پہلا موقع ہے کہ اس طرح کے حملے کے بعد انڈین حکومت نے محتاط لہجہ اختیار کرتے ہوئے پاکستان کو براہ راست مورد الزام نہیں ٹھہرایا۔
اس حملے کو میڈیا میں بھی اس لیے توجہ ملی کیونکہ جموں کشمیر میں طویل مدت بعد انتخابات کے نتیجہ میں عمر عبداللہ کی حکومت کو ابھی اقتدار سنبھالے چار روز ہی ہوئے ہیں۔
واضح رہے زیڈ موڑ ٹنل نامی یہ سرنگ 2378 کروڑ روپے کی لاگت سے تکمیل کے آخری مراحل میں ہے۔
یہ حملہ کیسے ہوا؟
اتوار کی دوپہر کو انڈیا کی تعمیراتی کمپنی ’ایپکو‘ کے ایک افسر نے بتایا کہ ملازمین سونا مرگ سرنگ کی جلد تکمیل پر خوش تھے اور اس سلسلے میں یہ پروجیکٹ ختم ہونے پر جشن منانے کی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔
وہ بتاتے ہیں ’لیکن شام سات بجے کے قریب سرنگ کے قریب ہی بنے ملازمین کے عارضی کوارٹروں سے فائرنگ کی آواز سنائی دی تو سب کچھ ختم ہو گیا۔‘
پولیس کے مطابق مسلح حملہ آور کیمپ کے عقبی راستے سے داخل ہوئے تھے اور انھوں نے ملازمین پر اُس وقت فائرنگ کی جب وہ کام ختم کرکے کوارٹرز میں جا رہے تھے۔
حملے میں بڈگام کے علاقے سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر شہنواز احمد سمیت سات افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوگئے۔ ہلاک ہونے والے مزدوروں کا تعلق کشمیر، جموں، پنجاب اور اترپردیش سے تھا۔
اس واقعے کے بعد گذشتہ تین روز سے پولیس اور سکیورٹی فورسز کا زیر تعمیر سرنگ کے قریبی علاقوں میں سرچ آپریشن جاری ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ڈائریکٹر جنرل سپورٹس پنجاب پرویز اقبال کی زیر صدارت لاہور یوتھ فیسٹیول کے حوالے سے اہم اجلاس
زیڈ موڑ ٹنل اہم کیوں؟
اقوام متحدہ کے دفتر برائے انسداد دہشت گردی کے ساتھ منسلک رہنے والے مصنف اور تجزیہ نگار لَو پُوری نے Uses in Urdu سے بات کرتے ہوئے کہا کہ 'زیڈ موڑ ٹنل کی جیو سٹریٹجک اہمیت ہے کیونکہ یہ نہایت حساس سرینگر لداخ شاہراہ پر ہے۔ یہ ٹنل لداخ میں چینی سرحد تک پہنچنے کے لیے فوج کا بنیادی رابطہ ہے۔'
پُوری مزید کہتے ہیں کہ یہ حملہ انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے سکیورٹی نظام کی نگرانی کرنے والے لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا کے لیے نئے چیلنج کے طور پر سامنے آیا۔
'جموں کشمیر میں اس وقت زیڈ موڑ سمیت 19 اہم ترین سرنگیں تعمیر کی جا رہی ہیں جن پر انڈیا 25 ہزار کروڑ کی رقم خرچ کر رہا ہے۔ ان منصوبوں اور ان پر کام کرنے والے ہزاروں مزدوروں کی مکمل سکیورٹی اب پہلے سے زیادہ ضروری بن گئی ہے۔'
لَو پُوری کہتے ہیں کہ انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کی خصوصی حیثیت کے آرٹیکل 370 کے خاتمے کے بعد مسلح شدت پسندوں نے کشمیر میں غیر مقامی مزدوروں کو ہلاک کیا اور اس کا مقصد انڈین شہریوں کے یہاں آ کر آباد ہونے کے امکان کو روکنا تھا۔
ان کا کہنا ہے کہ 'حالیہ حملے سے بھی لگتا ہے کہ جموں کشمیر میں اہم منصوبوں پر انڈیا بھر سے آنے والے مزدوروں کو خوفزدہ کرنا ہے۔'
ویڈیو کال جو ہو نہیں پائی
اس حملے میں ہلاک ہونے والوں میں جموں سے تعلق رکھنے والے انفراسٹرکچر ڈیزائنر ششی بھوشن بھی ہیں۔
جموں میں مقیم ان کی اہلیہ رُوچی نے بتایا کہ اتوار کو انھوں نے اپنے شوہر کی سلامتی کے لیے کرواچوتھ کا اپواس (ہندو مذہب کے مطابق ایک طرح کا روزہ) رکھا تھا اور شام کو وہ ویڈیو کال پر ششی کا چہرہ دیکھ کر اُپواس توڑنے والی تھیں۔
انھوں نے ویڈیو کال کی لیکن ششی کا فون بند تھا اور تھوڑی دیر میں خبر ملی کہ وہ نہیں رہے۔
اسی طرح بڈگام کے رہائشی ڈاکٹر شہنواز کے گھر پر بھی تین دن سے سوگ کا ماحول ہے۔ سونا مرگ کے باعث لوگ ان کے جنازے میں شرکت کے لیے بڈگام پہنچے تھے۔
ایک مقامی شہری نے بتایا کہ 'وہ صرف ایک کمپنی کے ڈاکٹر ہی نہیں بلکہ ٹنل کے ارد گرد کئی بستیوں کے ڈاکٹر بھی تھے۔'
52 سالہ ڈاکٹر شہنواز کی بیٹی کی شادی صرف پانچ روز قبل، 16 اکتوبر کو ہوئی تھی۔