26ویں ’’آئینی ترمیم‘‘ کی ممکنہ بنیادی وجہ سینئر صحافی مظہر عباس منظرعام پر لے آئے
تحریکِ انصاف میں صورت حال
اسلام آباد (ویب ڈیسک) سینئر صحافی و تجزیہ نگار مظہر عباس نے لکھا کہ بات بہت سادہ سی ہے اس ترمیم کو لانے کی ’ڈیڈ لائن‘ 23اکتوبر تھی وگرنہ اتنی جلد بازی، 18ویں ترمیم میں تو 9ماہ لگ گئے تھے اور ظاہر ہے اس کی بنیادی وجہ موجودہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی رخصتی اور جسٹس منصور علی شاہ کی بحیثیت چیف جسٹس تقرری تھی۔
یہ بھی پڑھیں: عدلیہ کی بحالی اور کارکنوں کی آزادی تک جدوجہد جاری رہےگی، عمران خان
طاقت کا سرچشمہ
روزنامہ جنگ کیلئے لکھے اپنے کالم میں مظہر عباس نے لکھا کہ ’یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ طاقت کا سرچشمہ کون ہے۔ اس ملک میں جہاں طاقت ہے وہیں ’اقتدار‘ چاہے برسر اقتدار کوئی بھی ہو۔ میں نے بڑی کوشش کی کہ 26ویں آئینی ترمیم میں اس نکتہ کا جواب تلاش کروں مگر بات پارلیمان سے شروع ہوکر عدلیہ پر ختم ہو گئی۔ رات کے اندھیرے سے صبح کے اجالے تک بڑی دھواں دار تقریریں ہوئیں، ایک چیف جسٹس سے لے کر دوسرے چیف جسٹس تک سب کو ذمہ دار قرار دیا گیا جمہوریت کو ڈی ریل کرنے کا، یہ کیوں ہوا تھا اور آج جو حکومت قائم ہے کیا ایک آزاد، غیر جانبدار انتخابات کے نتیجے میں قائم ہوئی ہے؟؟؟ اگر 2018 میں بھی ایسا ہی ہوا تھا جیسا کہ 2024 میں تو ان دونوں کے پیچھے کون تھا کیا اس کا جواب اس 26ویں آئینی ترمیم میں ملتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: دھند اور سموگ کے باعث موٹرویز کن کن مقامات سے بند ہیں؟ تفصیلات جانیے
قاضی صاحب کی تجاویز
قاضی صاحب کو میں یہ کریڈٹ ضرور دوں گا کہ انہوں نے سابق چیف جسٹس عمر بندیال کی طرح نہ 184-3کا استعمال کیا نہ ہی ہر سماعت میں من پسند بینچ تشکیل دیا البتہ ان کا سب سے متنازع فیصلہ بہرحال وہی کہلائے گا جس کے نتیجہ میں ایک سیاسی جماعت سے اس کا انتخابی نشان واپس لے لیا گیا۔ البتہ قاضی صاحب نے بعض مقدمات کی براہ راست کوریج کا اہتمام کرکے ایک احسن فیصلہ کیا کیونکہ بہرحال عوام کو جاننے کا حق ہے۔
یہ بھی پڑھیں: پی ٹی آئی: ایک دہشت گرد جماعت جس کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں – عظمٰی بخاری
اسلام آباد کی سیاست
26ویں آئینی ترمیم کے دوران اسلام آباد سیاست کا مرکز بنا رہا۔ اس میں سب سے زیادہ متحرک دو ہی شخصیات نظر آئیں ، ایک پی پی پی کے چیئرمین بلاول بھٹو اور دوسرے جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان۔ مگر ایک اہم ترین شخصیت جو منظر نامہ سے دور رہی وہ ہے پشتون ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی، جو اس تقریباً نامعلوم چھ جماعتی اتحاد کے سربراہ تھے جس میں پاکستان تحریک انصاف، بی ایل پی (مینگل) بھی تھے۔ اس پورے پروسیس میں پی ٹی آئی سیاسی طور پر کمزور نظر آئی۔
یہ بھی پڑھیں: سکھ یاتریوں کیلئے پاکستان آمد پر کوئی ویزہ فیس نہیں ہوگی، وفاقی وزیر داخلہ
تاریخی مثالیں
رہ گئی بات مسلم لیگ (ن) اور پی پی پی کی تو اس ترمیم سے کم از کم ان کو وقتی سکون شاید حاصل ہو جائے ’اعلیٰ عدلیہ‘ کی طرف سے مگر ہماری پارلیمانی تاریخ کچھ اور بتاتی ہے۔ تین مثالیں دے کر آگے بڑھتا ہوں جس سے آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ اصل مسئلہ اعلیٰ عدلیہ یا چیف جسٹس کا نہیں ہے۔
صدر میجر جنرل (ر) اسکندر مرزا نے اپنی کابینہ میں اس وقت کے آرمی چیف جنرل ایوب خان کو وزیر دفاع بنایا اور پھر اکتوبر 1958 کو مارشل لا بھی لگا دیا۔ دوسری مثال ذوالفقار علی بھٹو کی ہے، جنہوں نے اپنے تئیں ایک کمزور جنرل ضیاء الحق کو سات جنرلوں پر ترجیح دیکر چیف لگایا۔ تیسری مثال جنرل پرویز مشرف کی ہے، جنہوں نے تین جنرلوں پر ترجیح دے کر سابق وزیراعظیم نوازشریف کو آرمی چیف لگایا۔
وزیراعظم کا بیان
وزیراعظم شہباز شریف کہتے ہیں کہ ’آج پارلیمان آزاد ہوگئی‘۔ اگر ایسا ہے تو وہ بلاول بھٹو کے ساتھ مل کر ’میثاق جمہوریت‘ کو مکمل طور پر نافذ کرکے دکھائیں۔