ہمارے ملک میں موجودہ عدالتی نظام انگریز حکومت سے ہی مستعار لیا گیاہے، جس کی روح انصاف کرنا اور اس طرح کیا جائے کہ ہوتا نظر آئے
مصنف کی تفصیل
مصنف: جسٹس (ر) بشیر اے مجاہد
قسط: 62
یہ بھی پڑھیں: کورئیر کا روپ دھار کر ڈاکو بھارتی سائنسدان سے 2 کروڑ روپے لے اڑے
پاکستان کا عدالتی نظام
پاکستان میں موجودہ عدالتی نظام انگریز حکومت سے مستعار لیا گیا ہے۔ اس کی روح انصاف کرنا ہے اور یہ کہ انصاف اس طرح کیا جائے کہ انصاف ہوتا ہوا نظر آئے۔ یہ روح ہمارے نظام انصاف میں موجود ہے اور اکثر اس پر عمل بھی ہوتا ہے۔ مگر ہم پہلے بھی کہہ چکے ہیں کہ ہمارے معاشرے میں دیگر خرابیوں کے ساتھ ساتھ اخلاقی اقدار بھی کمزور ہوتی جا رہی ہیں۔ سیاسی اور معاشی ترغیبات اس معاشرے کے ساتھ خوفناک اژدھے کی طرح لپٹی ہوئی ہیں۔ انصاف کی کرسی پر بیٹھے انتہائی نیک نام افراد کو کب لالچ اور حرص کا ناگ ڈس جائے، اس کی پیشین گوئی کون کر سکتا ہے؟
یہ بھی پڑھیں: نوشکی: سیکیورٹی اہلکاروں اور دہشتگردوں کے درمیان جھڑپ، ایک ہلاک
تاریخی پس منظر
قیام پاکستان سے قبل، گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935ء کے تحت انڈیا میں فیڈرل کورٹس کا قیام عمل میں آیا۔ اس سے پہلے، انڈیا میں 1772ء کے ایکٹ کے تحت ایک عدالتی نظام ترتیب دیا گیا تھا، جس میں وقتاً فوقتاً تبدیلیاں ہوتی رہیں۔ 1861ء میں انڈین ہائی کورٹس ایکٹ نافذ ہوا، اور اس سے پہلے 1833ء میں چارٹر ایکٹ نافذ کیا گیا تھا۔ پھر 1875ء میں آگرہ ہائی کورٹ قائم ہوئی، جو الٰہ آباد شفٹ کر دی گئی۔ انگریز حکومت نے ماتحت عدلیہ کا نظام بھی وضع کیا اور سیشن کورٹس قائم ہوئیں۔ مجسٹریسی کا نظام بھی متعارف کرایا گیا۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان بھی کلائیمٹ چینج کے سنگین مسئلہ سے دو چار ،قدرتی آفات سے نمٹنے کی تیاری کرنی ہوگی: مریم نواز
قانونی ترقیات
انڈیا میں انگریزی حکومت نے کریمنل پروسیجر کوڈ (Criminal Procedure Code) 1898ء بھی نافذ کیا۔ یہ ترقیاتی عمل بتدریج جاری رہا، یہاں تک کہ برطانوی پارلیمنٹ نے گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935ء پاس کیا۔ اس کے تحت پورے انڈیا میں ایک فیڈرل کورٹ وجود میں آئی۔ اس سے فیڈرل کورٹ کو اختیار دیا گیا کہ وہ گورنر جنرل کو مشاورت بھی فراہم کر سکتی ہے۔ پھر انڈین انڈی پینڈنس ایکٹ (Indian Independence Act) 1947ء وجود میں آیا، جس کے تحت ہندوستان کو پاکستان اور بھارت دو ریاستوں میں تقسیم کر دیا گیا۔
نظام حکومت کا تسلسل
یہی ایکٹ بنیادی آئینی دستاویز ہے جس کے تحت دونوں ممالک اپنا نظام حکومت جاری رکھنے کے پابند تھے، جب تک کہ دونوں ممالک اپنا اپنا آئین مرتب نہ کر لیں۔ یہ طے کیا گیا کہ جب تک دونوں ممالک اپنے اپنے قوانین اور متعلقہ ضوابط تیار نہ کر لیں، اس وقت تک انگریزی عہد کے قوانین اور فیصلے ہی نافذ العمل رہیں گے۔ البتہ حکومتیں اپنے قوانین بنانے میں آزاد تھیں اور وہ ان فیصلوں میں تبدیلیاں بھی کر سکتی تھیں۔ پاکستان میں ان قوانین کے تحت مشرقی پاکستان ہائی کورٹ، پشاور ہائی کورٹ، سندھ ہائی کورٹ اور پنجاب میں لاہور ہائی کورٹ قائم ہوئی۔ مغربی پاکستان کے چوتھے صوبہ بلوچستان کو سندھ ہائی کورٹ کے ساتھ وابستہ کر دیا گیا۔
نوٹ: یہ کتاب "بک ہوم" نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)۔ ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔