انگلش ٹیم کے پاکستانی نژاد سپنرز: “رضوان نے کہا لڑکے کو اردو آتی ہے، تو ہم پشتو میں بات کریں”
انگلش کرکٹ ٹیم کے کھلاڑی شعیب بشیر اور ریحان احمد راولپنڈی میں پاکستان کے خلاف سیریز کے تیسرے اور فیصلہ کن ٹیسٹ میچ کے لیے ٹیم میں شامل کیے گئے ہیں۔
یہ دونوں کھلاڑی برطانیہ میں پیدا ہوئے، تاہم ان کے خاندان کا تعلق پاکستان سے ہے اور ان کے کئی رشتہ دار یہی رہتے ہیں۔
Uses in Urdu کے پروگرام 'ٹیسٹ میچ سپیشل' میں ان دونوں کھلاڑیوں نے میدان میں اردو بولنے، پاکستانی ٹیم کے ساتھ نمازِ جمعہ کی ادائیگی اور انگلش کرکٹ ٹیم کے ڈریسنگ روم کے ماحول پر بات کی۔
'رضوان پشتو میں بات کرتے ہیں تاکہ ہم ان کی حکمتِ عملی نہ سمجھ سکیں'
ریحان احمد اور شعیب بشیر دونوں پوٹوہاری زبان بولتے ہیں جو پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے شہر میر پور میں بولی جاتی ہے، جہاں سے ان دونوں کھلاڑیوں کے خاندانوں کا تعلق ہے۔
تاہم یہ دونوں اتنی اردو جانتے ہیں کہ سمجھ سکیں کہ میدان میں پاکستانی ٹیم کے کھلاڑی آپس میں کیا بات کر رہے ہیں۔
ریحان احمد نے بتایا کہ 'میری اردو اتنی خراب نہیں ہے۔ مناسب ہے۔ میں اردو میں بات چیت کر سکتا ہوں لیکن اس میں کچھ انگریزی کے الفاظ شامل ہوتے ہیں۔ مگر مجھے سب سمجھ آتا ہے۔'
اس حوالے سے شعیب بشیر نے ایک دلچسپ بات بتائی کہ چونکہ انھیں اردو سمجھ آ جاتی ہے تو پاکستان کے خلاف میچ میں انھیں اس کا فائدہ ہوتا ہے۔
انھوں نے بتایا کہ 'مجھے سمجھ میں سب آ جاتا ہے اور میں جواب بھی دے سکتا ہوں لیکن میری اردو تھوڑی ٹوٹی پھوٹی ہے۔'
'ایسا ہوتا ہے کہ جب پاکستانی کھلاڑی اپنی زبان میں بات کر رہے ہوتے ہیں اور ہم اندازہ لگانے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں۔'
شعیب بشیر نے بتایا کہ 'میں بین سٹوکس کے پاس جا کر انھیں بتا سکتا ہوں کہ یہ (بلے باز) مِڈ وکٹ کے اوپر سے شاٹ لگانے والا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ 'ایک مرتبہ میں بیٹنگ کرنے گیا۔ محمد رضوان وکٹوں کے پیچھے کھڑے تھے۔ انھیں ویسے بھی باتیں کرنے کا شوق ہے۔ میں جیسے ہی کھیلنے آیا تو انھوں نے کہا 'اس لڑکے کو اردو سمجھ آتی ہے۔ ہم پشتو میں بات کرتے ہیں۔ اور پھر مجھے کچھ سمجھ نہیں آیا کہ کیا ہو رہا تھا۔ خوب مزا آیا۔'
یہ بھی پڑھیں: بیرون ملک مقیم پاکستانیوں نے 4ماہ میں 11.84ارب ڈالر پاکستان بھیجے، سٹیٹ بینک
'والد چاہتے ہیں کہ انگلینڈ اچھا کھیلے لیکن اتنا نہیں کہ پاکستان ہار جائے'
شعیب بشیر کے والد پاکستان میں جبکہ ان کی والدہ برطانیہ میں پیدا ہوئیں۔ تاہم ریحان احمد کے والدین پاکستان میں ہی پیدا ہوئے۔ ان کے بڑے بھائی رحیم احمد لیسٹر شائر کے لیے کاؤنٹی کرکٹ کھیلتے ہیں جبکہ ان کے 16 سالہ چھوٹے بھائی فرحان نے گذشتہ اگست میں نوٹنگھم شائر کاؤنٹی میں اپنا ڈیبیو میچ کھیلا اور اس میں 10 وکٹیں لے کر نام کمایا۔
ریحان احمد رواں سیریز کے پہلے ٹیسٹ میچ میں شامل نہیں تھے تاہم ان کے والد یہ میچ دیکھنے گئے تھے۔ ریحان کے مطابق جب انگلینڈ نے 800 رنز بنا لیے تو ان کے والد سٹیڈیم سے واپس آ گئے کیونکہ انھیں لگ رہا تھا کہ پاکستان کے جیتنے کے امکانات بہت کم ہیں۔
ریحان کہتے ہیں کہ 'میرے والد اپنے جذبات چھپانے کی کوشش کرتے ہیں لیکن مجھے محسوس ہو جاتا ہے کہ وہ اپنی ٹیم کو ہارتے ہوئے نہیں دیکھ سکتے۔ وہ چاہتے ہیں کہ ہم اچھا کھیلیں لیکن اتنا اچھا نہ کھیلیں کہ ان کی (پاکستانی) ٹیم ہار جائے۔'
انہوں نے بتایا کہ 'چونکہ میری پرورش انگلینڈ میں ہوئی ہے تو انگلینڈ میری پسندیدہ ٹیم ہے لیکن مجھے پاکستان ٹیم بھی بہت پسند ہے اور میں ان کے میچ شوق سے دیکھتا تھا۔ پاکستان میرا دوسرا گھر ہے۔ یہاں میری دادی اور چچا، تایا رہتے ہیں جن سے ملنا ہمیشہ اچھا لگتا ہے۔‘
پاکستان سے تعلق کے بارے میں شعیب بشیر نے کہا کہ یہ ملک ان کی ثقافت کا حصہ ہے۔ ’میں انگلینڈ میں پیدا ہوا ہوں اس لیے میں ہمیشہ سے انگلینڈ ٹیم کا پرستار رہا ہوں۔ لیکن جب بھی پاکستان کا انڈیا یا کسی بھی ٹیم کے خلاف میچ ہوتا تو میں پاکستان کا ساتھ دیتا تھا۔ تاہم مجھے ایشز اور انگلش کرکٹ ٹیم کے کھیل کی جھلکیاں دیکھنا پسند ہے۔ پاکستان میری دوسری پسندیدہ ٹیم ہے۔'
یہ بھی پڑھیں: اسلام آباد ہائیکورٹ: 21 سے 25 اکتوبر تک کیسز کی سماعت کیلئے ججز ڈیوٹی روسٹر جاری
'انگلینڈ نے ٹیم میٹنگ کا وقت بدلا تاکہ ہم پاکستانی ٹیم کے ساتھ نماز پڑھ سکیں'
ریحان احمد اور شعیب بشیر مسلمان ہیں۔ انٹرنیشنل کرکٹ کی دنیا میں یہ دونوں ایک ایسے وقت پر منظر عام پر آئے جب انگلینڈ اور ویلز کے کھیلوں میں نسل پرستی کے ہائی پروفائل سکینڈلز سامنے آ رہے تھے۔ 'انڈیپنڈنٹ کمیشن فار ایکوئٹی اِن کرکٹ' کی رپورٹ کے مطابق انگلینڈ میں کرکٹرز کے ساتھ امتیازی سلوک 'بہت عام' ہے۔
اس پس منظر میں ریحان احمد نے بتایا کہ انگلینڈ کرکٹ ٹیم میں امتیازی سلوک کی کوئی جگہ نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ 'ہم لڑکے جب چینجنگ روم میں جاتے ہیں تو ہمیں ساتھی کھلاڑیوں کی جانب سے اس طرح کا رویہ محسوس نہیں ہوتا۔ یہ اچھی بات ہے اور ہم اس کی قدر کرتے ہیں۔'
'بیز (انگلینڈ ٹیم کے کوچ برینڈن میکلم) اور سٹوکس اور ٹیم کی انتظامیہ ہمارے لیے نماز کا بھی انتظام کرتے ہیں۔ پہلے اُن تمام چیزوں کا خیال کیا جاتا ہے جو ہمیں درکار ہوتی ہیں۔ کرکٹ بعد میں آتی ہے۔ ہمیں کچھ اور مانگنے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی۔ اس کے لیے ہم ان کے ہمیشہ شکر گزار رہیں گے۔'
'ہم نے پاکستانی ٹیم کے ساتھ جمعہ کی نماز بھی پڑھی۔ ہم ان کے ہوٹل گئے تھے جہاں رضوان نے نماز کی امامت کی۔ اُس سے ایک ہفتے پہلے ہم مسجد گئے تھے۔ انگلینڈ ٹیم نے ہماری وجہ سے میٹنگ کے اوقات بدلے تاکہ ہم مسجد سے نماز پڑھ کے آئیں اور میٹنگ میں شامل ہو سکیں۔'
ریحان بشیر نے انگلینڈ ٹیم کے اپنائیت کے رویے کی تعریف کی۔ 'سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہمیں کوئی دکھاوا نہیں کرنا پڑتا۔ اس وجہ سے ہم اچھی کرکٹ کھیل پاتے ہیں۔ ہمارے اندر خود اعتمادی پیدا ہوتی ہے۔'
'اب لوگوں کے نظریے بدل رہے ہیں۔ ان واقعات کے بعد مزید بہتری آرہی ہے۔ امید ہے کہ حالات اسی طرح بہتر ہوتے جائیں گے۔'
'ہو گا وہی جو نصیب میں لکھا ہوگا'
ریحان احمد نے اپنے کرئیر کا پہلا ٹیسٹ میچ 2022 میں پاکستان کے خلاف کھیلا تھا۔ اس وقت ان کی عمر 18 برس اور 126 دن تھی۔ انگلینڈ کی تاریخ میں ریحان سب سے کم عمر کھلاڑی ہیں جنہوں نے ٹیسٹ کرکٹ کھیلی ہے۔
گذشتہ ہفتے ریحان بشیر 21 برس کے ہو گئے۔ وہ 11 ٹیسٹ میچز میں 38 وکٹیں لے چکے ہیں اور اب وہ سب سے کم عمر کھلاڑی بننے کی کوشش میں ہیں جو ٹیسٹ میچز میں 50 وکٹیں لیتا ہے۔ فی الحال یہ ریکارڈ سٹیون فن کے پاس ہے جنہوں نے 2011 میں 22 برس کی عمر میں 50 وکٹیں لی تھیں۔
شعیب بشیر نے کہا 'جب تک ممکن ہو گا میں انگلینڈ کے لیے کھیلوں گا۔ اتار چڑھاؤ تو آتے رہیں گے مگر ہمارا ایمان یہی سکھاتا ہے کہ تقدیر پہلے سے لکھی ہوئی ہوتی ہے۔ آپ کو حالات کے ساتھ چلنا آنا چاہیے۔'
ریحان احمد نے کہا 'زیادہ دور کی نہ سوچیں۔ ایک اچھا انسان بنیں اور اپنی کمیونٹی کے لیے کچھ کریں۔ آپ چاہتے ہیں کہ آپ اپنی ٹیم کے لیے کچھ کریں کیونکہ اس نے آپ کو بہت کچھ دیا ہے۔ ہمارے ہاتھ میں صرف یہ ہے کہ ہم اچھی کارکردگی دکھانے کی کوشش کریں۔'
'ہو گا وہی جو نصیب میں لکھا ہوگا۔ ہم ہر حال میں خوش رہیں گے۔'