تحریک انصاف نظام سے باہر کیسے آئی ۔۔۔

مارچ 2022 کی سیاسی صورتحال
یہ مارچ 2022ء کی بات ہے۔ اس وقت کے وزیراعظم عمران خان کیخلاف قومی اسمبلی جبکہ پنجاب کے وزیراعلیٰ عثمان بزدار کیخلاف پنجاب اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد داخل ہو چکی تھی۔ تمام اتحادی ایک ایک کر کے وزیراعظم عمران خان کا ساتھ چھوڑتے جا رہے تھے۔ ایسے میں ڈوبتی کشتی کو سہارا دینے کیلئے مسلم لیگ (ق) پاکستان تحریک انصاف سے جا ملی۔ 28 مارچ کو کپتان نے ”وسیم اکرم پلس“ عثمان بزدار سے استعفا لے لیا اور چودھری پرویز الٰہی کو وزیراعلیٰ نامزد کر دیا۔ اسی دن اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم (پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ)نے عمران خان کیخلاف تحریک عدم اعتماد قومی اسمبلی میں جمع کراد ی۔
یہ بھی پڑھیں: غیر ملکی سیاحوں کے لئے پتھروں کے نیچے چھپی تاریخ اور فرعونوں کے راز
تحریک عدم اعتماد کا نتیجہ
9 اپریل 2022ء کی رات وزیراعظم عمران خان کیخلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہو گئی۔ عمران خان کو ملک کے پہلے وزیراعظم کا اعزاز ملا، جنہیں تحریک عدم اعتماد کے ذریعے عہدے سے ہٹایا گیا۔ عدم اعتماد کی تحریک174ووٹوں سے منظور کی گئی۔ قومی اسمبلی کا اجلاس صبح ساڑھے دس بجے شروع ہوا، سارا دن لیت و لعل سے کام لیا جاتا رہا۔ آئینی اور قانونی طور پر ووٹنگ کا عمل ہر صورت مکمل کیا جانا تھا لیکن تحریک انصاف کے سپیکر اسد قیصر اور ڈپٹی سپیکر قاسم سوری نے معاملہ اتنا پیچیدہ کیا کہ رات ہو گئی۔
یہ بھی پڑھیں: کوئی کچھ بھی کہتا رہے،2 ماہ تڑپنے پھڑکنے، پہلو بدلنے کے بعد بالآخر26ویں ترمیم آئین کے حُجلۂ عروسی میں آ بیٹھی ہے: عرفان صدیقی
عدالتی کارروائیاں اور وزیراعلیٰ کی تبدیلی
سپریم کورٹ اور اسلام آباد ہائی کورٹ کے دروازے ہفتے کی رات چھٹی والے دن کھول دیئے گئے تاکہ آئینی بحران سے بچا جا سکے۔ “کپتان” کی وفاق میں حکومت ختم ہو گئی مگر پنجاب اور خیبر پختونخوا میں ان کی حکومتیں برقرار تھیں۔ 16 اپریل 2022ء کو حمزہ شہباز پنجاب کے وزیراعلیٰ منتخب ہو گئے اور “کپتان” کے ہاتھ سے پنجاب حکومت “کچھ ماہ” کیلئے نکل گئی۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان کا فضائی آپریشن معمول پر آگیا، سعودی عرب سمیت 15 ممالک کی پروازیں شروع
مسائل اور قانونی چیلنجز
پاکستان تحریک انصاف کے ا س وقت کے گورنر عمر سرفرازچیمہ نے حمزہ شہباز سے حلف لینے سے انکار کر دیا اور بیمار ہو کر ہسپتال میں داخل ہو گئے۔ حلف برداری کا معاملہ ہائی کورٹ میں چلا گیا۔ عدالتی حکم پر سپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف نے 14 دن بعد 30 اپریل2022ء کو حمزہ شہباز سے وزارت اعلیٰ کا حلف لیا۔ 30 مئی 2022ء کو عمر سرفراز چیمہ کی بطور گورنر پنجاب عہدے سے چھٹی کرا دی گئی اور مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے بلیغ الرحمان کو پنجاب کا نیا گورنر بنا دیا۔
یہ بھی پڑھیں: ٹیسلا پائے: سولر چارجنگ اور سیٹلائٹ انٹرنیٹ سے جڑے موبائل فون جو ابھی حقیقت سے کافی دور ہیں
پنجاب میں سیاسی گہماگہمی
اس سب کے باوجود معاملات نہ سدھرے۔ پنجاب حکومت کس کی ہے؟ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں یہ معاملات چلتے رہے۔ یکم جولائی2022ء کو سپریم کورٹ نے حکومت اور اپوزیشن کے درمیان اتفاق رائے کے بعد وزیراعلیٰ پنجاب کا دوبارہ انتخاب22 جولائی 2022ء کو کرانے کا حکم دے دیا۔ نئے انتخاب تک حمزہ شہباز بطور وزیراعلیٰ برقرار رہیں گے، چیئرمین تحریک انصاف عمران خان اور سپیکر پنجاب اسمبلی چودھری پرویز الٰہی نے اس حوالے سے عدالتی فیصلے کو قبول کر لیا۔
یہ بھی پڑھیں: لاہور ہائیکورٹ نے جج کے نام سے پہلے عزت مآب نہ لکھنے پر توہین عدالت کی درخواست پر معاونت طلب کرلی
حمزہ شہباز کی دوبارہ انتخاب
22 جولائی کو حمزہ شہباز دوبارہ وزیراعلیٰ پنجاب منتخب ہو گئے۔ ڈپٹی سپیکر دوست مزاری نے چودھری پرویز الٰہی کے 10 ووٹ مسترد کر دیئے۔ دوست مزاری نے اسمبلی میں چودھری شجاعت حسین کا خط پڑھ کر سنایا، جس میں اپنے ارکان کو حمزہ شہباز کو ووٹ ڈالنے کی ہدایت کی۔
یہ بھی پڑھیں: تجارتی خسارہ بڑھنے کے باوجود اپریل میں ملکی کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس ریکارڈ
عمران خان کے جلسے اور الیکشن کی ہلچل
پاکستان تحریک انصاف نے اس کے باوجود بھی حمزہ شہباز کو وزیراعلیٰ تسلیم نہ کیا۔ پنجاب کے قائد ایوان کا دوبارہ انتخاب سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا گیا۔ وزیراعظم کے عہدے سے فارغ ہونے کے بعد عمران خان نے ملک گیر جلسے کیے۔ کپتان نے پنجاب پر فوکس کر رکھا تھا کیونکہ 17 جولائی 2022ء کو 20 نشستوں پر ضمنی الیکشن ہونا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: جرمنی میں ٹرین اسٹیشن پر چاقو حملے میں 12 افراد زخمی، خاتون گرفتار
17 جولائی 2022ء کے نتائج
17 جولائی کے الیکشن میں عوام نے بلے پر مہر لگا دی۔ 20 نشستوں میں سے کپتان15 نشستیں لے اڑا اور مسلم لیگ (ن) کے حصے میں4 نشستیں آئیں۔ 26 جولائی 2022ء کو سپریم کورٹ نے ڈپٹی سپیکر پنجاب اسمبلی کی رولنگ کالعدم قرار دے کر حمزہ شہباز کو وزیراعلیٰ کے عہدے سے فارغ کر دیا اور چودھری پرویز الٰہی کو وزیراعلیٰ پنجاب مقرر کر دیا۔
یہ بھی پڑھیں: پاک بھارت کشیدہ صورتحال کے بعد بحیرہ عرب میں تعینات بھارتی بیڑہ ‘آئی این ایس وکرانت، اچانک واپس نیول اسٹیشن پہنچ گیا
پرویز الٰہی کی وزارت اعلیٰ کی خاطر جنگ
پچھلی مرتبہ کی طرح اس بار بھی گورنر پنجاب وزارت اعلیٰ کا حلف لینے سے انکار کر دیا۔ پہلے گورنر عمر سرفراز چیمہ تھے، اس بار بلیغ الرحمان نے انکار کیا۔ صدر عارف علوی نے چودھری پرویز الٰہی سے وزارت اعلیٰ کا حلف لیا۔ مسلم لیگ( ن) نے نہ چاہتے ہوئے بھی چودھری پرویزالٰہی کو وزیراعلیٰ تسلیم کر لیا۔
یہ بھی پڑھیں: دیکھیں گے ایک ہفتے میں کون کہاں جا رہا ہے، بچے سیاسی کتاب نہ ہی پڑھیں تو بہتر ہے: کامران ٹیسوری
کپتان کی خواہشات اور سیاسی بحران
لیکن “کپتان” کچھ اور چاہتا تھا۔ عمران خان ملک میں وقت سے پہلے الیکشن کے خواہاں تھے اور اس کیلئے کسی بھی حد تک جانے کیلئے تیار تھے۔ 17جولائی 2022ء کے ضمنی الیکشن کے نتائج ان کے سامنے تھے، وہ جانتے تھے کہ فوری الیکشن سے وہ تمام سیاسی جماعتوں کو چاروں خانے چت کر دیں گے اور پی ڈی ایم یہ جانتی تھی کہ اگر فوری الیکشن ہو گیا تو ان کا سیاسی دھڑن تختہ یقینی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان اسٹاک میں کاروبار کا مثبت رجحان، 100 انڈیکس میں 550 سے زائد پوائنٹس کا اضافہ
خیبرپختونخوا میں حالات
خیبرپختونخوا میں تو پہلے سے ہی “کپتان” کی حکومت تھی۔ پنجاب اسمبلی کی تحلیل روکنے کیلئے مسلم لیگ( ن) نے 19 دسمبر 2022ء کو وزیراعلیٰ پرویز الٰہی کیخلاف تحریک عدم اعتماد جمع کرا دی۔ گورنر پنجاب بلیغ الرحمان نے چودھری پرویز الٰہی کو اعتماد کا ووٹ لینے کا کہہ دیا۔
یہ بھی پڑھیں: اتحاد و یکجہتی میں ہے جملہ مسائل کا حل: ڈاکٹر حسن قادری کا سیرت النبیؐ کانفرنس میں خطاب
حکومتی بحران کا خاتمہ
جوڑ توڑ عروج پر پہنچ گیا، مسلم لیگ( ن) کی حتی الامکان کوشش تھی کہ کسی بھی طرح پنجاب اسمبلی کو ٹوٹنے سے بچایا جائے۔ 11 جنوری 2023ء کی رات11 بج کر 55 منٹ پرڈرامائی انداز میں پنجاب اسمبلی کا اجلاس ملتوی کیا گیا۔ ٹھیک 10 منٹ پر 12بج کر 5 منٹ پر اجلاس دوبارہ شروع ہوا اور پرویزالٰہی نے 186 کا میجک نمبر لے کر اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ حاصل کر لیا۔
یہ بھی پڑھیں: سندھ کے مجموعی بجٹ کا تخمینہ 37 کھرب سے زائد ہونے کا امکان، تجاویز سامنے آ گئیں
ایوان کی تحلیل اور نت نئی مشکلات
“کپتان” کے پاس اب بھی وقت تھا۔ پنجاب حکومت ایک بار پھر اس کے پاس تھی۔ لیکن وہ “ڈٹا” رہا۔ ٹھیک ایک دن بعد 12 جنوری کو چودھری پرویز الٰہی نے “کپتان” کی سیاست کے آگے ہتھیار ڈال دیئے اور پنجاب اسمبلی تحلیل کرنے کی سمری پر دستخط کر دیئے۔
یہ بھی پڑھیں: فساد تھوڑی دیر کنٹرول ہو جائے تو پاکستان مزید ترقی کریگا: عظمیٰ بخاری
تحریک انصاف کی مشکلات
17 جنوری 2023ء کو “کپتان” کی ہدایت پر خیبر پختونخوا اسمبلی بھی توڑ دی گئی اور اس طرح پاکستان تحریک انصاف “نظام” سے باہر آ گئی۔ “کپتان” کو فوری الیکشن نہ ملا۔ “الٹا” 9مئی ہو گیا۔ سب “پھڑے” گئے۔
ختم شدہ کہانی
پاکستان تحریک انصاف کا “کپتان” گزشتہ ایک برس سے زائد سے جیل میں ہے۔ پارٹی کا کوئی”والی وارث” نہیں۔ ہر تدبیر الٹی پڑ رہی ہے۔ جماعت کے لیڈران ایک دوسرے سے دست و گریبان ہیں۔ سوشل میڈیا ”ایکس” پر ایک دوسرے کے گندے کپڑے دھو رہے ہیں۔ ایک دوسرے سے سوال کر رہے ہیں، کیا ہماری “سیاست” باقی ہے؟