موت سے قبل صفائی: مرنے کے بعد پیچھے رہ جانے والوں کی مدد کرنے کا سویڈش طریقہ
ہم میں سے زیادہ تر کے گھر غیر ضروری چیزوں سے بھرے ہوتے ہیں۔۔۔ جن میں سے بہت ساری چیزیں ایسی ہوتی ہیں جنھیں ہم کبھی استعمال بھی نہیں کرتے۔
پرانے کپڑوں سے لے کر نئے کپڑوں تک جنھیں ہم کبھی نہیں پہنتے، پرانی تصویریں جن کے بارے میں ہمیں یہ بھی نہیں معلوم کہ وہ کس کی ہیں، اور ایسے پرانے آلات جو ہم کبھی بھی استعمال نہیں کرتے۔
ہمیں یہ بھی نہیں معلوم ہوتا کہ ہم نے زندگی کی ضروریات سے زیادہ چیزیں کیوں جمع کر رکھی ہیں۔
اور اگر ہم خود ہی نہیں جانتے کہ ان چیزوں کا کیا کرنا ہے تو تصور کریں کہ اگر ہم وفات پا جائیں تو یہ بے شمار سامان، کپڑے۔۔۔ یہ سب ہمارے گھر والوں کے لیے کتنی بڑی مشکل بن جائے گا؟
لیکن سویڈن نے اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے ایک بہت ہی عملی طریقہ ڈھونڈ لیا ہے۔
اس سے پہلے کہ موت ان کے دروازے پر دستک دے، وہاں کے شہری اپنے گھروں سے اضافی سامان چھانٹنا شروع کر دیتے ہیں۔ اس عمل کو ’ڈیتھ کلیننگ‘ کہا جاتا ہے۔
سویڈن میں زیادہ تر لوگ جب بڑھاپے کی عمر کو پہنچتے ہیں تو اپنے سامان کو چھانٹنا شروع کر دیتے ہیں اور گھر سے اضافی غیر ضروری اشیا نکال دیتے ہیں۔
یہ ایک ایسا عمل ہے جسے ’دوسٹوڈننگ‘ کہتے ہیں۔ یہ ایک قدیم رسم ہے جو موت کے ساتھ تعلق کو ظاہر کرتی ہے۔
یہ عمل ’موت سے پہلے صفائی‘ یعنی دنیا سے رخصت ہونے سے پہلے تمام غیر ضروری چیزوں سے چھٹکارا حاصل کرنا ہے۔
سویڈش آرٹسٹ مارگریٹا میگنسن نے ’مرنے سے پہلے صفائی کرنے کا سویڈش آرٹ‘ میں اسے تفصیل سے بیان کیا ہے۔
میگنسن نے Uses in Urdu کو بتایا کہ بنیادی طور پر خیال یہ ہے کہ مرتے ہوئے اپنے پیچھے کچرے کا ڈھیر چھوڑنا (جس سے دوسروں کو نمٹنا پڑے) اچھی بات نہیں۔
انھوں نے مزید کہا کہ آج ہم جس تیز رفتار معاشرے میں رہتے ہیں، ایسے دور میں یہ اپنے پیچھے رہ جانے والوں کی مدد کرنے کا ایک طریقہ ہے۔
یہ ایک ایسا سادہ خیال ہے جس کی وضاحت کی ضرورت نہیں۔
لیکن سوچیں اس خاندان کے بارے میں جسے آپ ناقابل برداشت غم میں چھوڑ رہے ہیں، انہیں بے شمار مسائل کے حل کے ساتھ آپ کے چھوڑے گئے کچرے کی بھی چھانٹی کرنی ہے۔
میگنسن نے کہا، "ایک دن جب آپ یہاں نہیں ہوں گے تو آپ کے خاندان کو آپ کی تمام چیزوں کا خیال رکھنا پڑے گا اور مجھے نہیں لگتا کہ یہ کوئی اچھی بات ہے۔"
وہ کہتی ہیں، "جن لوگوں سے آپ پیار کرتے ہیں ان کے بارے میں سوچیں۔ کیا آپ وہ سارا سامان، جسے آپ نے زندگی بھر استعمال نہیں کیا، ان کے لیے دردِ سر بنا جائیں گے؟"
اور اپنی تمام پسندیدہ چیزوں کے بارے میں سوچیں، کیا آپ چاہیں گے کہ وہ کہیں پھینک دی جائیں؟
میگنسن اسے ایک مشکل کام کے طور پر بیان کرتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں، "مجھے کسی اور کی موت کے بعد اتنی بار صفائی کرنی پڑی کہ میں اپنی موت کے بعد کسی کو ایسا کرنے پر مجبور کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتی۔"
میگنسن کو اپنے والد، والدہ اور شوہر کی موت کے بعد ان کے چھوڑے گئے سامان کی صفائی کی ذمہ داری اٹھانی پڑی۔
وہ تسلیم کرتی ہیں کہ یہ عمل ہر کسی کے لیے آسان نہیں۔
وہ اپنی کتاب میں لکھتی ہیں، "اپنے تمام پرانے سامان کی فہرست بنانا، یہ یاد رکھنا کہ آخری بار ہم نے انھیں کب استعمال کیا تھا، اور ان میں سے کون سی چیزیں ہمارے لیے قیمتی تھیں، جو قابلِ ضرورت نہیں، انھیں کسی اور کو دینا یا ان سے چھٹکارا حاصل کرنا۔۔۔ یہ آسان کام نہیں۔"
"انسانی فطرت چیزوں کو پھینکنا نہیں بلکہ انھیں جمع کرتے رہنا ہے۔"
لیکن وہ تسلیم کرتی ہیں کہ وہ ہمیشہ اس قسم کی صفائی کرتی رہتی ہیں، "میں ہر چیز کو ایک خاص ترتیب میں رکھنا پسند کرتی ہوں۔"
وہ کہتی ہیں، "میرا ماننا ہے کہ اپنی یادوں کے ساتھ ساتھ زندگی کے تجربات سے سیکھے گئے سبق کو آنے والی نسلوں، اپنے پوتے پوتیوں تک پہنچانا ان کے لیے بیکار چیزیں چھوڑنے سے زیادہ بہتر ہے۔"
اس کام کو صحیح طریقے سے انجام دینے کے لیے کئی تجاویز ہیں۔
سب سے پہلے یہ دیکھیں کہ آپ کے پاس تہہ خانے یا الماریوں میں کیا کیا پڑا ہے۔
’یعنی ایسی جگہیں جو نظروں سے اوجھل ہیں اور جہاں کم استعمال کی جانے والی چیزیں رکھی گئی ہیں، ایسی چیزیں جن کے بارے میں آپ نہیں جانتے کہ ان کا کیا کرنا ہے اور ہوسکتا ہے کہ آپ کو یاد بھی نہ ہو کہ کیا کیا رکھا ہوا ہے۔‘
وہ مشورہ دیتی ہیں کہ ایسی چیزیں کسی رشتہ دار یا دوست کو دینے پر غور کریں۔ شاید آپ ان چیزوں کو مزید استعمال نہ کریں لیکن ہوسکتا ہے انھیں ان کی ضرورت ہو۔
میگنسن کہتی ہیں ’بڑی چیزوں سے شروع کریں۔۔۔ میز، کرسیاں، فرنیچر، پھر چھوٹی چیزوں جیسے کپڑے یا برتن چھانٹنا شروع کریں۔‘
جہاں تک کپڑوں کا تعلق ہے، ان کے بارے میں ان کا ماننا ہے کہ الماری میں صرف وہی کپڑے رکھیں جو آپ پہننا پسند کرتے ہیں۔ وہ چیزیں جن کے بارے میں آنکھیں بند کرکے استعمال کرنے کا فیصلہ کیا جاسکتا ہے۔
وہ چیزیں جو آپ کے لیے پریشان کن ہیں جیسے خطوط، ڈائری یا ذاتی تصویریں، ایک ایسے باکس میں محفوظ کی جا سکتی ہیں جن پر ایک قابل اعتماد شخص کے نام کا لیبل لگا ہو، جس کے لیے آپ یہ سب چھوڑنا چاہتے ہوں۔
ان دستاویزات کے استعمال سے متعلق ہدایات بھی اس باکس کے ساتھ لکھی جا سکتی ہیں۔
دوستوں اور خاندان کے ساتھ حل نہ ہونے والے مسائل بھی اتنے ہی اہم ہیں۔ کوشش کریں اپنی زندگی میں ہی انھیں حل کر لیں۔
وہ کہتی ہیں ’ویب سائٹس اور ڈیجیٹل اکاؤنٹس تک رسائی کے لیے پاس ورڈ کہیں لکھے جا سکتے ہیں تاکہ پیچھے رہ جانے والوں کے لیے چیزیں آسان ہو سکیں۔‘
’آخری کام آپ کی ذاتی تصاویر کو ترتیب دینا ہے۔ آپ نہیں جانتے کہ یہ تصویر ماضی کی کتنی یادیں واپس لے آئیں گی اسی لیے یہ سب کام اکیلے کرنا ٹھیک ہے کیونکہ ہمارا مقصد اپنے پیاروں کو اضافی بوجھ سے بچانا ہے۔‘
یہ کام کرنے کا بہترین وقت کون سا ہے؟
اس بارے میں وہ کہتی ہیں کہ 'اگر آپ زندگی کے آخری حصے میں ہیں تو بہت زیادہ دیر نہ کریں۔'
میگنسن 65 سال کی عمر میں یہ کام شروع کرنے کی تجویز دیتی ہیں لیکن یہ کام جلد از جلد شروع کرنے کا مشورہ بھی دیتی ہیں۔
میگنسن کا کہنا ہے کہ جلدی شروع کریں اور ہر روز تھوڑا تھوڑا کریں۔ اس سے پہلے کہ آپ بہت بوڑھے ہو جائیں اور صفائی کرنے کی طاقت اور ہمت نہ رہے۔
انھوں نے کہا 'آپ کو یہ کام کرنے پر افسوس نہیں ہو گا اور نہ ہی آپ کے چاہنے والوں کو۔'
اور اگر آپ کے والدین بڑھاپے میں پہنچ گئے ہیں تو کوشش کریں ان سے اس موضوع پر بات کریں۔
وہ کہتی ہیں کہ 'یقیناً یہ آسان نہیں لیکن میرے خیال میں اگر آپ ان کے زندہ رہتے ہوئے ایسا نہیں کرتے تو یہ بعد میں آپ کے لیے جہنم بن جائے گا۔'
'آپ کو تھوڑا سا بدتمیز ہونا پڑے گا۔ ان کے ساتھ تہہ خانے یا سٹوریج میں جائیں اور ان سے پوچھیں کہ وہ ان چیزوں کے ساتھ کیا کرنا چاہتے ہیں اور کیا انھیں اس سامان کی چھانٹی کرنے میں آپ کی مدد چاہیے۔'
میگنسن کا ماننا ہے کہ 'مجھے نہیں لگتا کہ کسی کو بھی اس کام کے بارے میں سن کر پریشانی ہو گی۔'