جیمی سمتھ نے پاکستان کے خلاف شاندار فتح حاصل کی
بین سٹوکس کو وہ قدم نہیں اٹھانا چاہیے تھا۔ مگر جونہی انھوں نے آف سٹمپ سے باہر ٹرن کرتی ساجد خان کی گیند پر کور ڈرائیو کھیلنے کی کوشش کی اور سلپ میں سلمان آغا نے انھیں آؤٹ کر دیا، پاکستان کو لگا کہ وہ دن جیت چکے ہیں۔
مگر وہ نہیں جانتے تھے کہ جیمی سمتھ یہاں کیا کمال کرنے والے ہیں۔
پانچ روز تک پچ کے اردگرد ہیٹرز اور پنکھوں کی کارکردگی دیکھنے کے بعد انگلش کیمپ کے حواس کچھ مضطرب ضرور تھے کہ جانے یہ پچ ان کی جدید بیٹنگ کے ساتھ کیا سلوک کرے گی۔ اسی لیے میچ سے پہلے آخری شام نیٹ سیشن میں تمام انگلش بلے بازوں کے درمیان چھکے لگانے کا مقابلہ بھی ہوا۔
بیز بال ٹیسٹ کرکٹ کا وہ انداز ہے جسے آسانی پسند نہیں ہے۔ اور پاکستان نے پچھلے پانچ روز وہ سب کچھ کیا جو راولپنڈی کی تیز پچ میں کچھ سست کر پائیں۔ پاکستان کی یہ کوششیں مادی طور پر تو کامیاب رہیں بلکہ نفسیاتی طور پر بھی انگلش بلے بازوں کے لیے مشکل پیدا کر گئیں۔
پہلے سیشن میں ہی راولپنڈی کی پچ نے تین ڈگری سے زیادہ ٹرن فراہم کیا۔ مگر یہ ٹرن اتنا مہلک نہیں تھا جتنا کہ انگلش بلے بازوں کے اعصاب پر سوار ہوا۔ بلاشبہ رنز بنانا مشکل تھا، مگر روایتی ٹیسٹ بیٹنگ کی نظریہ اس کا مقابلہ کرنے کے لیے کافی تھی جب تک کہ گیند پرانی نہ ہو جاتی۔
لیکن عملی طور پر انگلش بلے بازوں کے لیے بھی راتوں رات اپنے تجربہ کار طرز پر اس پچ کے مطابق ہونا ممکن نہیں تھا اور پاکستانی سپنرز بھی اپنی ہر چال سے ایک قدم آگے تھے۔
پہلے سیشن میں انگلش بیٹنگ جیسے ٹوٹ گئی، ٹیم کا 175 رنز تک پہنچنا بھی مشکل دکھائی دے رہا تھا۔ اور لنچ کے فوری بعد بین سٹوکس نے جو قدم اٹھایا، وہ ان خدشات کے لیے مزید تقویت کا باعث بنا۔
اب پاکستان کا یقین پختہ ہوا کہ وہ واقعی کامیاب ہو چکے ہیں۔
لیکن جیمی سمتھ نے گس ایٹکنسن کے ساتھ وہ روایتی ٹیسٹ بیٹنگ کا انداز دکھایا جو 'بیز بال' کی چکا چوند میں کہیں کھو گیا تھا۔ جہاں ان سے پہلے بلے بازوں میں وکٹ کے آس پاس کھیلنے کا جنون تھا، وہاں سمتھ نے سیدھے بلے کے ساتھ ٹرن کا مقابلہ کیا۔
سمتھ کی اس بیٹنگ اپروچ نے جہاں بلے کے بیرونی کنارے کے منتظر قریبی فیلڈرز کو بے کار کر دیا، وہیں پچ کے غیر معتبر باؤنسر کو بھی سیدھے بلے کے ساتھ نیوٹرل کر دیا۔ ایٹکنسن کے ساتھ ان کی پارٹنرشپ نے پاکستانی بولنگ اٹیک کی یکسانیت کو پوری طرح بے نقاب کر دیا۔
شان مسعود اس ردعمل کا فوری جواب دینے میں ناکام رہے۔ نعمان علی اور ساجد خان اپنے پہلے سیشن کی تمام خوبیوں کے باوجود جیمی سمتھ کے لیے آسان ہدف بن گئے۔ باقی کسر پاکستان کے باؤنڈری فیلڈرز نے پوری کر دی۔
پہلے دن کے پہلے ہی گھنٹے میں اس قدر ٹرن لینے والی پچ پر چوتھی اننگز میں بیٹنگ کرنا ایک ڈراؤنے خواب سے کم نہیں ہوگا۔ اور ٹاس ہارنے کے بعد یہ پاکستان کی خوش قسمتی تھی کہ 150 سے بھی کم مجموعے پر انھیں چھ انگلش وکٹیں حاصل ہو گئیں۔
لیکن اس برتری کو فیصلہ کن بنانے کے لیے ضروری تھا کہ پاکستان انگلش اننگز کو 200 سے کم پہ ہی محدود کر دیتا۔ مگر جب جیمی سمتھ کی پچ سے موافقت اور دونوں سپنرز کی یکسانیت میچ پر حاوی ہو رہی تھی، تب شان مسعود نے اپنے لیگ سپنر یا اکلوتے سیمر پر اعتماد نہیں کیا۔
جس میچ کے پہلے تین ہی گھنٹوں میں پاکستان پوری طرح اپنے پنجے گاڑ چکا تھا، وہاں جیمی سمتھ کی اننگز ایک متبادل دلیل لے آئی اور میچ سے لڑھکتی اپنی ٹیم کے بولرز کے لیے ایک حوصلہ بخش مجموعہ فراہم کر دیا۔
گو، نئی گیند کے ساتھ انگلش سپنرز کا سامنا آسان نہ تھا مگر اوپر کی تین وکٹیں پلک جھپکتے میں گنوانے کے بعد اب اس میچ کا سارا بوجھ پاکستانی مڈل آرڈر پر ہے جنہیں لمبی اننگز کھیل کر نہ صرف انگلش برتری کو مٹانا ہے بلکہ خود ہی کو وہ اضافی رنز بھی فراہم کرنا ہیں جو میچ کی چوتھی اننگز کو پہاڑ بننے سے روک سکیں۔