آپ کا اصلی وجود، دوسروں کی آراء اور نظریات کا مرہون منت ہے لیکن یہ بھی ضروری اور سچ نہیں کہ آپ ان آراء اور نظریات کو زندگی بھر اپنائے رکھیں
مصنف اور ترجمہ
مصنف: ڈاکٹر وائن ڈبلیو ڈائر
ترجمہ: ریاض محمود انجم
قسط: 27
یہ بھی پڑھیں: ویتنام: ڈیڑھ سال میں چوتھے صدر کا انتخاب
خود سے محبت اور دوسروں کی محبت
ایک انسان میں پہلے اپنی ذات سے محبت کرنے اور پھر دوسروں کے لیے پیار و محبت کے اظہار کے لیے صلاحیتیں موجود ہوتی ہیں۔ اپنے لیے دوسروں کے رویوں اور طرز عمل کے باعث اپنی ذات کو بے وقعت اور غیر اہم مت سمجھئے۔ اس رویے کی اپنائیت بہت ہی مشکل ہے۔
یہ بھی پڑھیں: سفارت خانہ پاکستان ابوظہبی میں نئے تعمیر شدہ قونصلر ہالز کا افتتاح کردیا گیا
معاشرتی پیغامات کی اشکال
معاشرے کی طرف سے آپ کو ملنے والا پیغام بہت ہی بھونڈا ہے۔ مثلاً "آپ نے برا رویہ اپنایا ہے" کی بجائے کہا جاتا ہے "تم بہت بڑے لڑکے ہو!" تمہارے رویے کی وجہ سے تمہاری ماں تمہیں پسند نہیں کرتی" کے بجائے کہا جائے گا "تم بہت برا رویہ اپناتے ہو اس لیے ماں تمہیں پسند نہیں کرتی۔"
یہ بھی پڑھیں: پشاور ہائیکورٹ میں وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا اعلیٰ امین گنڈاپور کی نااہلی کی درخواست
اپنی اہمیت کا احساس
ان پیغامات کے نتیجے میں آپ یہ سمجھ سکتے ہیں کہ "وہ مجھے اس لیے پسند نہیں کرتی کیوں کہ میں احمق ہوں" لیکن آپ کو چاہیے کہ اس قسم کا رویہ اپنائیں یعنی "وہ مجھے پسند نہیں کرتی، یہ اس کا اپنا فیصلہ ہے اور میں اسے پسند نہیں کرتا، پھر بھی میں خود کو اہم سمجھتا ہوں۔"
یہ بھی پڑھیں: منظوری: راولپنڈی اور اٹک میں فوج کی تعیناتی
آر ڈی بینگ کے خیالات
جب ایک شخص خود کو دو سروں کے خیالات کے تابع کر لیتا ہے اور ان خیالات کو اپنی قدر و قیمت کے برابر سمجھتا ہے، اسی چیز کو آر ڈی بینگ نے اپنی تصنیف KNOTS میں مختصراً بیان کیا ہے:
میری ماں مجھ سے محبت کرتی ہے
میں خوش ہوتا ہوں
میں اس لیے خوش ہوتا ہوں کہ میری ماں مجھ سے محبت کرتی ہے
میرے ماں مجھ سے محبت نہیں کرتی
مجھے خوشی نہیں ہوتی
مجھے اس لیے خوشی نہیں ہوتی کہ میری ماں مجھ سے محبت نہیں کرتی۔
میں ناخوش ہوں کیونکہ میں خود کو ناخوش سمجھتا ہوں۔
میں اس لیے ناخوش ہوں کہ میری ماں مجھ سے محبت نہیں کرتی۔
میری ماں مجھ سے محبت نہیں کرتی کیونکہ میں بہت ہی بُرا انسان ہوں۔
یہ بھی پڑھیں: مریم اورنگزیب: پی ٹی آئی کے احتجاج کا مقصد شنگھائی کانفرنس کو ملتوی کرنا تھا
پرانے خیالات کی زنجیریں
بچپن کی عادات اور اندازہائے فکر آسانی سے ترک نہیں کیے جا سکتے۔ آپ کی ذات کا عکس ابھی تک دوسروں کے رویوں اور طرز عمل کا مظہر ہے۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ آپ کا اصلی وجود، دوسروں کی آراء اور نظریات کا مرہون منت ہے لیکن یہ بھی ضروری اور سچ نہیں ہے کہ آپ ان آراء اور نظریات کو زندگی بھر اپنائے رکھیں۔
یہ بھی پڑھیں: فتنتہ الخوارج کے حملے کو دلیری سے ناکام بنانے والے جینٹل مین کیڈٹ عارف اللہ شہید مکمل فوجی اعزاز کیساتھ سپردِ خاک
نئے رویوں کی ضرورت
پرانی زنجیروں کو توڑنا بہت مشکل ہے لیکن جب آپ جان لیتے ہیں کہ یہ زنجیریں آپ کو کس طرح محدود کرتی ہیں تو انہیں اپنی زندگی سے نکال دینا اور بھی ضروری ہو جاتا ہے۔ اب آپ ذہنی کوششوں اور مشقوں کے ذریعے ایسے رویے اور عادات اختیار کر سکتے ہیں جن سے آپ خود سے محبت و چاہت کا اظہار کر سکیں اور یہ آپ کو حیران کر دیں گی۔
یہ بھی پڑھیں: آئینی ترمیم کے بعد وزیراعظموں کو گھر بھیجنے کا راستہ رک جائے گا، بلاول بھٹو
محبت و چاہت کے ماہر لوگ
وہ کون سے لوگ ہیں جو محبت و چاہت کے اظہار میں مہارت رکھتے ہیں؟ کیا وہ اپنے اس رویے کے ذریعے خود کو تیار کر رہے ہیں؟ نہیں! قطعی نہیں! کیا وہ شکست تسلیم کر لیتے ہیں اور ایک کونے میں جا کر چھپ جاتے ہیں؟ نہیں، ایسا بھی نہیں ہے۔
یہ بھی پڑھیں: کرینہ کپور کا کرشمہ کپور اور سلمان خان سے متعلق بڑا انکشاف
خود کا آغاز
اگر آپ دوسروں کے لیے محبت کا اظہار اور دوسروں کی طرف سے محبت وصول کرنے میں مہارت حاصل کرنا چاہتے ہیں تو اس کا آغاز اپنی ذات سے کریں اور اپنی ذات کے لیے کسی بھی احساس کمتری پر مبنی رویے اور طرز عمل کو ختم کرنے کا عزم کریں جو آپ کی زندگی کے معمولات میں شامل ہو چکا ہے۔
(جاری ہے)
نوٹ
یہ کتاب "بک ہوم" نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں) ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔