ممیوں کو جلانے پر دیومالائی کہانیوں نے جنم لیا، ایک ممی کے انتقام کا تذکرہ بھی ہوا، کئی لوگ عبرتناک موت کا شکار ہوئے پھر عزت سے دفن کیا جانے لگا
مصنف کی معلومات
مصنف: محمد سعید جاوید
قسط: 40
یہ بھی پڑھیں: قاسم رونجھو آپ بیتی سنانا چاہتے تھے، حکومت نے شرمندگی سے بچنے کیلئے کورم توڑا، اختر مینگل
بت کی تاریخ
پھر پچھلی صدی میں اس بت کو دریافت کرکے نجانے کیسے کھینچ کھانچ کر یہاں اس کی موجودہ جگہ پہنچایا گیا ہوگا۔ بعد میں حکومت نے اس کو مزید بتاہی سے بچانے کے لئے اسے ایک چھت مہیا کر دی اور پھر سیاحوں کی سہولت کے لئے اسے مزید کشادہ کرکے اس کو اس بڑے دو منزلہ ہال میں محفوظ کر لیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: پنجاب پولیس میں 2 ارب 13 کروڑ روپے کی مالی بےضابطگیوں کا انکشاف
عجائب گھر کی معلومات
اس فرعون کی کچھ تاریخ تو مجھے عجائب گھر کا چکر لگا کر ازبر ہوگئی تھی۔ رہی سہی کسر اس دن عبدو نے پوری کر دی اور اس کے سرکاری اور غیر سرکاری مشاغل پر بھی خوب جی بھر کے روشنی ڈالی۔ میں اس کے بارے میں کیے گئے انکشافات آگے چل کر بیان کرونگا۔
یہ بھی پڑھیں: سجاد علی شاہ چیف جسٹس مقرر ہوئے تو شور مچ گیا سنیارٹی کو نظرانداز کیا گیا،اعلیٰ سطحی ڈیفنس کونسل کی تشکیل کا آئیڈیا وزیراعظم اور مشیروں کو پسند نہیں آیا
میمفس کی سیر
ہم ایک بار میمفس کی گلیوں میں نکل آئے تھے۔ جہاں ابھی تک جگہ جگہ فرعونوں کے چھوٹے بڑے سنگلاخی مجسمے کھڑے نظر آ رہے تھے جو اکثر تباہ شدہ اور سربریدہ حالت میں تھے اور آس پاس ان کے اور عام لوگوں کے مقبروں کے آثار بکھرے ہوئے تھے۔ جن میں سے ہزاروں لاکھوں ممیوں کو نکال کر دنیا کے مختلف شہروں میں پہنچا دیا گیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: ہانیہ عامر کی انٹری دلجیت دوسانجھ کے کنسرٹ میں، نئی ویڈیو سامنے آگئی
ممیوں کی بے قدری
شروع میں تو یہ صرف برطانیہ، امریکہ اور یورپ کے دوسرے ملکوں میں رہنے والے رئیسوں اور امراء کے ذاتی عجائب گھروں کی زینت بنیں۔ تاہم بعد میں جب ان کا حصول بے حد سہل ہوا تو ان کی ایسی بے قدری ہوئی کہ جس کا دل چاہتا تھا وہ تھوڑی سی رقم ادا کرکے کسی بھی جہاز راں کمپنی کے گودام سے اپنی پسندیدہ ممی اٹھوا کر اپنے گھر لے جاتاتھا۔ اس طرح کے گودام قاہرہ میں جگہ جگہ موجود تھے، جن میں ہر وقت سینکٹروں کی تعداد میں یہ ممیاں موجود ہوتی تھیں۔
یہ بھی پڑھیں: وزیراعظم شہباز شریف آج سعودی عرب کے 2 روزہ دورے پر روانہ ہوں گے
مقامی لوگوں کی صورتحال
اوریہ بات بھی تاریخ کا ایک المناک باب ہے کہ ایک وقت ایسا بھی آیا تھا کہ مقامی مصری باشندے ایسی ممیاں فٹ پاتھوں پر جگہ جگہ لے کر بیٹھ گئے اور ان کی بولیاں لگانے لگے۔ ظلم کی انتہا تو اس وقت ہوگئی جب یورپ کی کئی فیکٹریوں کی بھٹیوں میں انہیں جلا کر توانائی پیدا کی جانے لگی۔ یہ بڑا ہی سستا ایندھن تھا اور ایک ممی اپنی پٹیوں اور حنوط کے لئے استعمال کئے جانے والے تیل اور مصالحوں کی وجہ سے بڑی دیر تک جلتی رہتی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: چلتے پھرتے سم نیٹ ورک تبدیل کروانے والے ہوجائیں ہوشیار،نیا فراڈ آگیا
شرائط کی تبدیلی
پھر کسی عقلمند نے دریافت کیا کہ اس طرح ان کا جلانا ایک بہت ہی خطرناک صورت حال پیدا کرسکتا ہے اور اس سے کئی مہلک بیماریاں بھی جنم لے سکتی ہیں۔ کچھ دیومالائی کہانیوں نے بھی جنم لیا اور ایک آنجہانی ممی کی روح کے عذابوں اور انتقام کا تذکرہ بھی ہوا اور ایک دو ایسے قصے بھی منظر عام پر آگئے جہاں ممی کی روح نے آکر اپنی بے قدری اور تذلیل کا بدلہ چکا دیا۔ جس سے خاندانوں کے کئی لوگ یکے بعد دیگرے عبرتناک موت کا شکار ہوئے۔
یہ بھی پڑھیں: معروف بھارتی صنعتکار رتن ٹاٹا کی موت کے بعد انکا جانشین کون ہو گا ؟ جانیے
ماضی کی ناکامیاب کاروباری سرگرمیاں
اس کے بعد ممیوں کو ان کے مدفنوں سے نکال کر بیرون ملک بھیجے جانے کا یہ سلسلہ بھی بڑی حد تک کم ہوگیا۔ پھر جب مصر آزاد ہو کر اپنے پیروں پر کھڑا ہوا تو یہ گھناؤنا کاروبار بھی یکسر موقوف ہوگیا اور ممیوں کو عزت اور تکریم دی جانے لگی۔ عجائب گھر کے علاوہ جہاں بھی ممیاں ملیں ان کواحترام سے دوبارہ دفن کر دیا گیا۔
یہ بھی پڑھیں: ایک میچ میں 6 کیچز: رضوان نے آسٹریلیا کیخلاف میچ میں ورلڈ ریکارڈ برابر کردیا
ممی کی تیاری کا مقام
عبدو مجھے لے کر ایک احاطے میں گھس گیا جہاں ایک بہت ہی وسیع و عریض تالاب کی موجودگی کے آثار ابھی تک باقی تھے اور اس کے پاس ہی کچھ سنگی چبوترے بنے ہوئے تھے۔ قریب ہی ایک قطار میں بنے ہوئے کچھ چھوٹے چھوٹے کمروں کے کھنڈر موجودتھے۔ اس نے مجھے بتایا کہ یہ وہ مرکزی جگہ تھی جہاں لوگوں کو ان کی موت کے بعد حنوط کرکے ان کی ممیاں تیار کی جاتی تھیں۔
نوٹ
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں) ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔