امریکی انتخابات میں کامیابی کے لیے پرعزم پاکستانی نژاد امیدوار: ‘گیس سٹیشن سے امریکی ریاست تک کا سفر’
’میں پہلی بار امریکہ 2001 میں آیا تھا اور میں نے پہلی نوکری ایک گیس سٹیشن پر کی تھی۔ میں نے محنت کی اور ایک طویل سفر طے کر کے گیس سٹیشن سے امریکہ کی سیاست تک اپنا راستہ بنایا۔ میرے خاندان میں دور دور تک کسی کا تعلق سیاست سے نہیں ہے اور جب میں نے اپنے گھر والوں کو بتایا کہ میں الیکشن لڑنا چاہتا ہوں تو ابتدا میں سب نے مجھے منع کیا اور کہا کہ آپ کو امریکی لوگ ووٹ نہیں دیں گے۔‘
امریکی ریاست فیلاڈلفیا کے علاقے کوٹمین کے رہائشی ایرن بشیر نومبر میں امریکہ میں ہونے والے انتخابات میں ریپبلیکن پارٹی کی جانب سے الیکشن لڑ رہے ہیں۔ امریکہ میں چوبیس سال گزارنے کے بعد آج وہ پُرامید ہیں کہ وہ یہ الیکشن جیت جائیں گے۔
ایرن بشیر کے مطابق انھیں پاکستانیوں، جنوبی ایشیائی کمیونٹی اور امریکی شہریوں کی حمایت حاصل ہے جبکہ انھیں امریکی صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کی توثیق بھی حاصل ہے۔ ’میں جب اپنی الیکشن کی مہم چلانے کے لیے نکلا تو سفید فام امریکی شہریوں سمیت سب نے مجھے اپنی سپورٹ کا یقین دلایا اور میرے حق میں اپنا ووٹ دینے کا وعدہ کیا۔‘
ٹرمپ کی پارٹی کی جانب سے الیکشن لڑنے کی وجہ ہے؟ اس سوال کے جواب پر اُن کا کہنا تھا کہ ’میں شخصیت سے زیادہ پالیسوں کو پسند کرتا ہوں اور ٹرمپ کی پالیسی ہے ’امریکن فرسٹ‘ یعنی ہمیں دنیا کے معاملات کے بارے میں سوچنے سے پہلے امریکوں کے بارے میں سوچنا ہو گا۔‘
’بہت سے لوگوں کو یہ لگتا ہے کہ امریکہ میں کوئی مسائل نہیں ہیں۔ یہ غلط ہے۔ آج سے چوبیس سال پہلے میں جس امریکہ میں آیا تھا آج کا امریکہ اس سے برُی حالت میں ہے۔ یہاں غربت ہے، لوگ بے گھر ہیں، مہنگائی ہے، فیملی سسٹم بلکل ختم ہوتا جا رہا ہے، سرکاری تعلیم کا نظام خراب سے خراب تر ہوتا جا رہا ہے اور دیگر درجنوں مسائل ہیں۔ یہ وہ تمام مسائل ہیں جو عام امریکی شہریوں کی زندگی کو مشکل بنا رہے ہیں۔ ہمیں پہلے اس سب کو حل کرنا ہو گا۔‘
انھوں نے کہا کہ ’میں جانتا ہوں کہ بہت سے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ٹرمپ تارکین وطن کے خلاف ہیں، یہ تاثر غلط ہے۔ وہ تارکین وطن کے خلاف نہیں بلکہ غیر قانونی طور پر امریکہ داخل ہونے والوں کے خلاف ہیں۔‘ انھوں نے مزید کہا کہ ’میں خود ایک امیگرنٹ ہوں۔ لیکن اب صورتحال یہ بن گئی ہیں کہ لوگ غیر قانونی طور پر امریکہ میں آتے ہیں اور کام نہیں کرتے۔ حکومت عوام کے ٹیکسوں پر اُن کا خرچہ اٹھا رہی ہے جس کی وجہ سے مسائل میں مزید اضافہ ہو رہا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر آپ صحیح طریقے سے امریکہ میں آئیں اور محنت کریں تو اس سے زیادہ بہتر ملک کوئی نہیں کیونکہ محنت کرنے والے بندے کی اس ملک میں قدر ہے۔‘
ایرن بشیر جیسے کئی اور پاکستانی بھی امریکی سیاست میں اپنی جگہ بنانے میں کامیاب رہے ہیں۔ تاہم ایسے افراد کی تعداد بہت زیادہ نہیں ہے۔ امریکی سیاست میں زیادہ تر پاکستانی امریکہ کی دو بڑی جماعتوں یعنی ریپبلیکن اور ڈیموکریٹس کی طرف سے مختلف ریاستوں میں بطور ہاؤس امیدوار میدان میں ہیں۔
امریکی ریاست پینسلوینیا کے علاقے کوپرسبرگ سے ڈیموکریٹ امیدوار مریم صبیح ایک ایسے علاقے سے الیکشن لڑ رہی ہیں جہاں کی زیادہ آبادی سفید فام امریکیوں پر مشتمل ہے۔ ’میں جانتی ہوں کہ آنے والا الیکشن میرے سے آسان نہیں ہو گا۔ میں صرف محنت سے اپنی الیکشن مہم پر توجہ دے رہی ہوں۔‘
مریم کے والدین پاکستان کے شہر کراچی سے امریکہ بطور تارکین وطن بہتر زندگی کی تلاش میں آئے تھے۔ مریم کہتی ہیں کہ ’میں ایک بیڈ روم کی اپارٹمنٹ میں پلی بڑھی ہوں اور میرے ماں باپ نے بہت محنت سے ہمیں اس مقام تک پہنچایا ہے۔ کم وسائل ہونے کے باوجود بھی میرے والدین نے ہمیشہ سب لوگوں کو اپنے گھر میں خوش آمدید کہا۔ انھوں نے ہی مجھے یہ سکھایا کہ محنت کرو، فلاحی کاموں میں حصہ لو اور اپنے اردگرد کے لوگوں کا خیال رکھو۔‘
انھوں نے Uses in Urdu کو بتایا کہ ’اُن کی اس تربیت کی وجہ سے ہی میں آج اپنے علاقے میں اس قابل ہوئی ہوں کہ لوگ مجھے سپورٹ کرتے ہیں۔ میں ہمیشہ سماجی اور فلاحی کاموں میں حصہ لیتی ہوں۔ سیاست میں آنے سے پہلے میں ایک صحافی تھی۔ جبکہ بطور تین بچوں کی ماں مجھ پر زیادہ ذمہ داریاں تھیں۔ اس سب کے ساتھ ساتھ میں کافی عرصے تک ڈیموکریٹ پارٹی کی امیدواران کے ساتھ مل کر ان کی مہم بھی چلاتی رہی ہوں۔‘
امریکی ریاست پینسلوینیا ایک سوئنگ سٹیٹ ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ امریکہ کے صدارتی انتخابات کے نتائج کا خاصا انحصار اس ریاست کے نتائج پر ہوتا ہے۔ اور اسی وجہ سے کملا ہیرس اور ڈونلڈ ٹرمپ دونوں ہی اس ریاست میں درجنوں بار اپنی ریلیاں کر چکے ہیں۔
Uses in Urdu گفتگو کرنے والے اس ریاست کے کئی لوگوں کا کہنا تھا کہ ’اس مرتبہ 5 نومبر کو ہونے والے امریکی صداتی الیکشن کی مہم دونوں فریقین کی جانب سے مقابلے پر ہو رہی ہے۔ جبکہ اس ریاست میں اس کام کے لیے اچھی خاصی رقم کی خرچ کی جا رہی ہے۔‘
اسی ریاست سے الیکشن لڑنے والی مریم صبیح اگر الیکشن میں جیت جاتی ہیں تو وہ پہلی پاکستانی مسلمان خاتون ہوں گی جو ہاؤس تک پہنچ سکیں گی۔
نیویارک سے تعلق رکھنے والے عامر سلطان بھی اس سال الیکشن میں ریپبلیکن کی جانب سے حصہ لے رہے ہیں جبکہ ان کا مقابلہ اپنے ڈسٹرکٹ میں ڈیموکریٹ امیدوار سے ہے۔ Uses in Urdu سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’پاکستان میں میری فیملی ایک سیاسی جماعت سے منسلک رہی ہے اور چھوٹی عمر سے ہی میں بھی سیاسی سرگرمیوں میں شامل ہوتا رہا ہوں۔‘
’جب میں امریکہ آیا تو میں نے یہاں سماجی اور فلاحی کام کیے، مختلف اداروں کے ساتھ مل کر لوگوں کی فلاح و بہبود کے لیے کوشاں رہا۔ میرے علاقے میں سب کے ساتھ تعلقات بہت اچھے ہیں مگر میں نے زیادہ تر کام ڈیموکریٹ پارٹی کے ساتھ کیا ہے۔ جب میں نے ریپبلیکن کی طرف الیکشن لڑنے کا ارادہ کیا تو ہمارے علاقے کے کچھ لوگوں نے مجھے کہا کہ آپ ایسا کیوں کر رہے ہیں، کیونکہ نیویارک میں ڈیموکریٹس کو زیادہ سپورٹ کیا جاتا ہے۔ اس پر میں نے جواب دیا کہ میں مسجد میں کھڑے ہو کر اپنے لوگوں سے نہیں کہہ سکتا کہ میں اس پارٹی کے لیے ووٹ مانگ رہا ہوں جو ایل جی بی ٹی اور اسقاط حمل کی حمایت کرتی ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’میں چاہتا ہوں کہ ہمارے پاکستانی زیادہ سے زیادہ امریکی سیاست کا حصہ بنیں۔ اگر ہم یہ سوچتے رہیں گے کہ ہمیں امریکی ووٹ نہیں ملے گا یا ہم ہار جائیں گے تو اس سوچ کے ساتھ پاکستانی امریکہ میں کبھی بھی طاقتور کمیونٹی کے طور پر سامنے نہیں آ پائیں گے۔ ہمیں دلیل کے ساتھ لوگوں کو قائل کرنا ہوگا۔ جو بھی نوجوان امریکی سیاست کا حصہ بننا چاہتے ہیں، انہیں چاہیے کہ وہ محنت کریں، سماجی اور فلاحی کاموں میں حصہ لیں اور کسی بھی سیاستدان کے ساتھ جڑ کر سیاست کرنا سیکھیں۔‘